طنز و مزاح کا پاپولر
یوں تو بیسویں صدی میں طنز و مزاح کے کئی نامور شعراء گزرے ہیں جیسےمحمد جعفری ،فرقت کاکوری، راجہ مہدی علی خاں، سلیمان خطیب، اسرار جامعی اور ساغر خیامی وغیرہ۔ان میں ہی پاپولر میرٹھی کا شمار ایک اچھے طنزو مزاح کے شاعر میں ہوتا ہے۔اپنی طنزومزاح کی شاعری کی بدولت انہوں نے دنیا کے گوشے گوشے میں شہرت اور مقبولیت پاکر اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ وہ کامیاب شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی شعر و شاعری کا شوق تھا۔ان کے والد سید نظام شاہ میرٹھ کے رؤسا میں شمار کیے جاتے تھے جو کہ ادب نواز تھے۔اپنے گھر شعر و ادب کی محفلیں اور مشاعرے منعقد کرواتے تھے۔جب گھر میں ہی شعر و ادب کا ماحول پیدا ہو تو ظاہر ہے شاعری کا شوق تو خود بخود ہوجاتا ہے اسی لیے پاپولر صاحب بچپن ہی سے شعر کہنے لگے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ شوق اور بڑھنے لگا۔ شروع شروع میں انہوں نے سنجیدہ اشعار کہے رفتہ رفتہ انہوں نے طنز و مزاح کا راستہ اختیار کیا اور وہ آج عصر حاضر میں طنز و مزاح شعراء میں ایک قابل تحسین نام بن گئے ہیں۔وہ اپنے وقت کے ایک پاپولر شاعر بن گئے ہیں اور صحیح معنوں میں اپنے نام کی طرح وہ دنیا کے ہر حصے میں پاپولر ہیں۔ ان کا اصل نام 'سید اعجاز الدین شاہ' اور تخلص' پاپولر' ہے۔وہ اپنا تعارف کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔
"پاپولر میرٹھی میرا تخلص ہے یہی اعجاز ہے
میرا جو بھی شعر ہے دنیا میں سرفراز ہے
آپریشن خوب ہی مضمون کے کرتا ہوں میں
ذہن میرا نوک نشتر کی طرح ممتاز ہے."
آج دنیا میں جہاں کہیں مشاعرے ہوتے ہیں پاپولر صاحب کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان،لندن آسٹریلیا، امریکا، دبئی، سعودی کویت، کینیڈا اور دیگر کئی ممالک کا انہوں نے سفر کیا۔ انہیں مشاعروں میں خوب داد و تحسین سے نوازا جاتا ہے۔ وہ کئی ایوارڈ سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔
دور حاضر میں انسانیت دور ہوتی جا رہی ہے۔ اگر کوئی کسی کو کچھ اچھی باتوں کی تلقین کرنا چاہتا ہے یا سیدھی راہ بتانا چاہتا ہے تو لوگوں کو برا لگتا ہے۔ ایسے دور میں جہاں انسان کا احساس اور جذبات مٹتے چلے جارہے ہیں پاپولر صاحب نے اس کو نشانہ بنا کر اپنی شاعری میں استعمال کیا اور صحیح غلط کی پہچان بتائی۔ انہوں نےعلمی، ادبی اور فکری لہروں سے اپنی شاعری کو مزین کیا۔ان کی شاعری میں سچائی کا احساس ہوتا ہے۔آج کے دور میں جہاں انسان فکروں میں الجھا رہتا ہے مشاعروں میں آکر وہ کچھ لمحوں کے لئے مسکراہٹوں اور قہقہوں میں گزارتا ہے۔سچ میں کسی کو رلانا بہت آسان ہے لیکن کسی کو دل سے ہنسانا بہت مشکل کام ہے اور پاپولر صاحب لاکھوں کروڑوں لوگوں کو مسکرانے اور قہقہے لگانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں ۔وہ ایک اچھے شاعر کے ساتھ ایک نیک دل انسان بھی ہیں۔ وہ ایک سادہ مزاج، مخلص اور ملنسار شخصیت کے مالک ہیں۔پاپولر صاحب نے اپنی شاعری میں عوامی لیڈروں کے قول و فعل کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ان کی طنزیہ شاعری سے قوم کی اصلاح ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ غلط قسم کے لیڈران کی وجہ سے ہمارا ملک ہندوستان تباہ و برباد ہو رہا ہے ہے۔
"راہ زنوں سے مت ڈرو تم پارساؤں سے بچو
لیڈران قوم کی ظالم اداؤں سے بچو "
پاپولر صاحب کی شاعری میں ہمیں دور حاضر کے معاشرتی زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ اس میں رونما ہونے والے روزمرہ کے واقعات کا بھی ذکر کافی دلچسپ انداز میں ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں کبھی ملک کے لیڈران کا ذکر ہوتا ہے،کبھی میاں بیوی کی نوک جھونک، کبھی سسرال والوں کے قصّے، کبھی برقع پوش خواتین اور کبھی بچوں کا نقشہ ہوتا ہے۔
ان کی نظموں میں" ملا کی بیوی", "ڈاکو کی کانفرنس", دل کانپ گیا", اور "پاگل ہوگئے امیدوار" وغیرہ شامل ہیں۔ وه اپنی تضمینوں میں مضامین کو بھی بڑی سنجیدگی اور سلیقے سے برتتے ہیں۔ یہ انہی کا اعجاز ہے کہ وہ اپنی زبان و بیان کی شیرنی، روانی اورسلاست فصاحت سے اپنی شاعری کو اس قدر دلچسپ کر دیتے ہیں کہ سننے والا اسی دنیا میں کھو جاتا ہے۔بلاشبہ ان کو کئی اشعار با زبانی یاد ہے،سچ میں ان کا حافظہ کمال کا ہے۔شاعری کے پیچھے ان کی انتھک محنت، لگن،جذبہ،مطالعہ وریاضت اور ان کی ذہانت کا راز پوشیدہ ہے۔ان کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔ ان کے فکر و شعور میں تروتازگی ہے۔ دنیا بھر کے جلوے ان کی شاعری میں بکھرے پڑے ہیں۔ان کے دو مزاحیہ شعری مجموعے "ہنس کر گزار دے"اور "ڈبل رول" منظر عام پر آچکے ہیں. ہندی میں "پاپولر کلام" اور "ہاسیئہ میو جیتے" کے علاوہ میرٹھ کے شعراء کا تذکرہ" نوائے رفتہ" اور "بوم میرٹھی" کے کلام کی تدوین و اشاعت ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ پاپولر صاحب کے مندرجہ ذیل اشعار کافی مقبول ہوئے ہیں۔آئیے ان کی شاعری سے محظوظ ہوتے ہیں۔
"اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر تیرے توکم
رسوائیوں کا کیا میری دفتر بنے گا تو
بیٹے کے سر پر دے کے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہوگیا ہے منسٹر بنے گا تو"
"ایک بیوی کئی سالے ہیں خدا خیر کرے
کھال سب کھنینچنے والے ہیں خدا خیر کرے
تن کے وہ اجلے نظر آتے ہیں جتنے یارو
من کے اتنے ہی کالے ہیں خدا خیر کرے"
"دنیا میں ایک بار ہی ملتی ہے زندگی
چہرے سے تو اداسی کا لیبل اتار کر دے
غم زندگی کے ساتھ یہ ہر سانس ہے مگر
میرا یہ مشورہ ہے کہ ہنس کر گزار دے"
کوثر جہاں،پونے
ریسرچ اسکالر،ممبئی یونیورسٹی۔۔۔