منشی رفیق للو کا قد امیتابھ بچن سے سوا دوانچ چھوٹا تھا وہ شروعاتی دنوں میں شہر کے تواڑی کواٹر میں رہا کرتے تھے وہ ہمیشہ چوڑے پا ئیچے کا پاجامہ اور کرتا ہی زیب تن کیا کرتے تھے ان کے پاجامے کے پائچے ضرورت سے زیادہ بڑے ہوتے تھے وہ کہیں بھی کسی بڑے نالے کے قریب جاکر اپنی سائیکل کھڑی کر کے اپنی ضروریات سے فارغ ہو جاتے تھے پانی کی جگہ مٹی کے ڈھلے کا استمعال کرنا انہیں زیادہ اچھا لگتا تھا وہ صرف پانی کا استعمال پانی پینے کی ہی حد تک کیا کرتے تھے ویسے زندگی میں انہوں نے پانی کا استعمال نہ کے برابر ہی کیا تھا وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے جو مزا بارش کے پانی میں نہانے میں آتا ہے وہ انہیں صدیوں تک تروتازہ رکھتا ہے منشی جی ادھر سے ادھر آنے جانے میں ایک ایسی پرانی سائیکل کا استعمال کیا کرتے تھے جو ان کے دادا اچھن چھوڑ کر مرے تھے وہ جب سائیکل چلاتے سائیکل کا ہر ہر پرزہ بجائے گھنٹی کے آواز کیا کرتا جیسے کہہ رہا ہو
ہمارا پیچھا چھوڑ دو ہم پہ رحم کرو اب منشی جی منشی جی ان سب باتوں سے بے فکر سڑکوں پر اڑے اڑے پھرتے وہ سڑک پر جب بھی کسی سے بات کرتے اپنے دونوں پیروں کو سائیکل کے ادھر ادھر جماکر کھڑے ہوجایا کرتے تھے وہ ہمیشہ اس ٹو میں رہا کرتے تھے کہیں سے کسی کا کوئی راز یا خامی یا کوئی عیب انہیں پتہ لگ جائے تو پھر منشی جی اسے لے اڑتے پھر اس کی دھنک سارے شہر میں سنائی دیتی تھی ان کی دن چریا صبحِ صادق سے ہی شروع ہوجاتی تھی وہ اپنی سائیکل کو تو صاف کرتے مگر اپنی صفائی کا انہیں کبھی بھی کوئی خیال نہیں آیا وہ اپنی صفائی کے سلسلے میں اکثر کہا کرتے تھے کیا کبھی شیروں کے بھی منہ دھولا کرتے ہیں یہ کہہ کر وہ ایک زور دار قہقہہ لگایا کرتے تبھی ان کا سارا جبڑا لوگوں کے سامنے آجاتا تھا اوپر نیچے کے بہت سے دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک خوفناک جن کی شکل اختیار کر لیتے تھے جیسے دیکھ کر اچھے اچھے لوگ ڈر و سہم جایا کرتے تھے سورگیہ سیٹھ کرپا نند گپتا ایک سماج سیوی ہمدرد اور مخلص انسان تھے ان کے گھر کے دروازے غریبوں کے لئے ہمیشہ کھولے رہتے تھے۔ وہ صبح چھ بجے سے نو بجے تک اپنی بیٹھک میں بیٹھا کرتے تھے ان سے ملنے شہر کے سیاسی غیر سیاسی اور بہت سے ضرورت مند لوگ بھی آیا کرتے تھے وہ سبھی کی ضرورتوں کو سمجھ کر پورا کیا کرتے تھے منشی جی بھی صبح صادق سے ہی ان کے پاس آکر بیٹھ جایا کرتے تھے جو ضرورت مند لوگ گپتا جی کے پاس آتے منشی جی انکا تعارف اور شجرہ ونسب گپتا جی کے گوش گزار کیا کرتے منشی جی شہر کی دائی تھے وہ سب کے حسب ونسب سے واقف تھے گپتا جی ان کی اس خدمت کے عوض کچھ رقم بھی ان کی جیب میں رکھ دیا کرتے تھے پھر اس کے بعد منشی جی کا اگلا سفر شروع ہوتا وہ سیدھے کچہری جاکر وکیل شدن کے بستے پر بیٹھ جایا کرتے تھے شدن وکیل کی وکالت بھی کوئی خاص نہیں چلتی تھی شدن کچہری میں اکر اپنا ٹائم پورا کیا کرتا تھا کچھ نٹھلے چھلیا ۔ آوارہ قسم کے لوگ بھی شدن کے یار تھے دن بھر کچہری میں کچھ ایسے لوگوں کی بھی بھر مار رہا کرتی تھی جو جھوٹے اور فرضی مقدمات میں پھنسا کر مجبور اور بے سہارا لوگوں کی جائیداد ہڑپ کر امیر بن بیٹھے تھے وہ سب منشی جی کی نظر میں اور گرفت میں تھےمنشی جی ان لوگوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے اور ان سب سے ایک اچھی رقم وصول کرتے تھے شدن کے بستے پر یہ سب لوگ منشی جی سے چائے اور پکوڑیاں مانگا کر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد نوش فرماتے منشی جی کھانے پینے کے سامان میں بھی خاصا پیسہ بچا لیا کرتے تھے کچہری کے بعد لڈن قریشی کے گھر آکر تازہ دم ہوتے اور اس کے آباؤ اجداد کی شان میں وہ قصیدے پڑھتے تھے ماہا کمجوس لڈن قریشی کی جیب سے پیسہ نکالنا یہ بھی
منشی جی ہی کا کمال تھا کچھ پیسے وہاں سے پکڑ کر گھر کی راہ لیتے راستے سے دوچار اینٹیں بھی اپنے ہمراہ اٹھا کر گھر لے آتے تھے کچھ لوگ کہتے تھے کہ منشی جی نے چوری کی اینٹوں سے ہی ایک اچھا خاصا گھر بنا لیا تھا
کسی کی جیب سے پیسہ نکالنا یہ بھی منشی کے بائیں ہاتھ کا کمال تھا منشی جی نے اپنی ساری زندگی کو مانگے تانگے کے اجالے سے منور کر رکھا تھا۔ بقول شاعر
نشیمن پر مرے ، بارِ کرم ساری زمیں کا ہے
کوئی تنکا کہیں کا ہے ، کوئی تنکا کہیں کا ہے
منشی جی کا گھر سماج وادی گھر کہلاتا تھا انکے گھر کے باہر ایک بورڈ بھی لگا ہوا تھا جس پر لکھا ہوا تھا سماج وادی ہاؤس منشی جی کا تعلق ہر پارٹی کے نیتاوں سے تھا وہ اپنا کوئی بھی کام آسانی سے کرا لیتے تھے وہ ان سب نیتاوں سے واقف تھے وہ جانتے تھے کس سے کیا کام لیا جائے ان نیتاوں سے منشی جی کسی کی شادی کے لئے علاج کے لیے کسی کی مدد کے لئے بڑی سے بڑی رقم آسانی سے حاصل کر لیتے تھے ان سب نیتاوں سے پیہ صول کرنا بھی منشی جی کا ہی دل گردا تھا ۔
منشی جی کی اتنی ڈھیر ساری مقبولیت کو دیکھتے ہوئے وکرم داروغہ نے انہیں ایس پی۔او ( اسپیشل پولیس آفیسر ) بنادیا تھا اب تو ان کے دونوں ہاتھوں میں لڈو تھے اگر محلے یا گلی کا کوئی معصوم بے قصور بچہ پکڑا جاتا منشی جی اسے چھڑوانے کے عوض دونوں طرف سے پیسے وصول کرتے تھے پولیس کو زیادہ پیسے دلواتے ادھر بچے کے ما ں باپ سے سے بھی پیسہ پکڑ لیتے تھے ۔ ہلدی لگے نہ پھٹکڑی رنگ چوکھا ہی چوکھا
منشی جی پر یہ محاورہ بالکل صادق آتا تھا ۔ شہر میں جب کسی لڑکی کا کوئی رشتہ ہوتا لڑکی کے ماں باپ لڑکے کے چال چلن کو جانے کے لئے منشی جی کے گھر کا رخ کیا کرتے منشی جی لڑکے کے چال چلن کا اور اس کے خاندان کا وہ شجر ونسب بیان کرتے کہ رشتہ ہوتے ہوتے رہ جاتا تھا منشی جی نے کبھی کوئی نیک کام کرنا تو سیکھا ہی نہیں تھا لڑکی والوں کی گالیاں الگ سے کھاتے ہمیشہ منفی ہی سوچ رہی اسی لئے شہر کے کچھ منچلوں نے کئی بار منشی جی کی شہر کے مختلف چوراہوں پر خاطرخواہ تواضع کی ایسی خاطر تواضع تو ان کی روز کا معمول تھا لیکن منشی جی نہ جانے کون سی مٹی کےبنےتھے ان کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا انہوں نے اپنے نفرتی کاروبار پر کبھی پیار کو حاوی ہونے نہیں دیا وہ اپنے منفی راستے پر ہمیشہ گامزن ہی رہے ایک دن اپنے شہر کے معروف سیٹھ عبدالشکور کو سلام کرنے کی غرض سے اس کے آفیس پہونچے عبدالشکور فون پر کسی سے اینٹوں کے ریٹ کے سلسلے میں بات کررہے تھے جیسے ہی سیٹھ جی نے فون رکھا منشی جی نے سیٹھ جی سے پوچھا کیا حضور کو اینٹیں درکار ہیں جی منشی جی دس ہزار اینٹوں مجھے باغ کی چار دیواری کرانے کے لئے چاہیںے مکرم مجھے چار ہزار کی ایک ہزار اینٹیں دے رہا ہے جو مجھے مہنگی لگ رہی ہیں سیٹھ جی اب آپ مکرم کا خیال چھوڑیں اب میں آپ کو اٹٹھایس سو کی ہزار اینٹیں دلواتا ہوں دس ہزار اینٹیں 28 ہزار کی مل جائیں گی ہیں نہ سستی اینٹیں اب چلتا ہوں اپنے دوست اننو کے پاس جو بھٹے کا مالک ہے اس سے ملکر آتا ہوں کچھ ہی دیر بعد منشی جی واپس آئے اپنے ساتھ اینٹوں کے مالک اننو کو بھی ساتھ لائےجیسا انہوں نے مجھے بتایا اور کہا سیٹھ جی آپ بہت خوش قسمت ہیں اننو مجھے آپ کے گھر کے باہر ہی مل گیا تھا بڑا ایمان دار لڑکا ہے آپ اسے دس ہزار اینٹوں کے پیسے 28ہزار دے دیجیئے گا کل ہی باغ میں ڈلوادے گا اور اینٹوں کی پہونچ کی زمےداری بھی اننو کی ہی ہوگی سیٹھ جی نے منشی جی کے کہنے مطابق اننو کو پہلے 14000ہزار روپے دے کر کہا باغ میں کام چل رہا ہے فلحال آپ پانچ ہزار اینٹیں ڑلوادیجے منشی جی اور اننو کل کا وعدہ کر کے چلے جاتے ہیں اب قریب قریب ایک سال ہونے کو آیا منشی جی نے اپنا وعدہ ابھی تک وفا نہیں کیا ادھر سیٹھ جی فون کر کر کے اتنا تھک چکے تھے اس کا رزلٹ آج فون کے بل کی شکل ان کی ٹیبل پر موجود تھا جو چودہ ہزار کا تھا ٹیلی فون کا بل دکھ کر سیٹھ عبدالشکور خون کا کا گھونٹ پی کر رہ گئے نہ ہی اننو اور نہ ہی منشی جی کا کوئی سراغ ابھی تک سیٹھ عبدالشکور مل سکا
تب کہیں جاکر یہ محاورے سیٹھ عبدالشکور کی سمجھ میں
آئے
مہنگا روئے ایک بار ستا روئے بار بار
کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی
اب سیٹھ عبدالشکور کو ان دونوں محاوروں کا مطلب بھی سمجھ میں آچکا تھا
منشی جی کی بہت سی باتوں سے قارئین بھی اچھی طرح سے متعارف ہوچکے ہونگے منشی رفیق کے اور بہت سے دلچسپ قیصے جن سے پردا اٹھنا ابھی باقی ہے.
- ڈاکٹر پاپولر میرٹھی۔
No comments:
Post a Comment