غزل
دیا ہے کسی نے یہ جھٹکا کسی سے کچھ نہیں کہتے
کہاں لا کر ہمیں پٹکا کسی سے کچھ نہیں کہتے
اکیلا چھوڑ کر چھمو کو باہر جا نہیں سکتے
لگا رہتاہے اک کھٹکا کسی سے کچھ نہیں کہتے
توے سا رنگ ہے موٹی ہے آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہیں
کہاں جاکر یہ دل اٹکا کسی سے کچھ نہیں کہتے
گلے میں جم گیا تھا تھوک۔ اس نے جب ہمیں ڈانٹا
بڑی مشکل سے ہے سٹکا کسی سے کچھ نہیں کہتے
سبھی کے ہاتھ۔ کے پتھر ہمارے سر کی جانب ہیں
سمجھتے ہیں اسے مٹکا کسی سے کچھ نہیں کہتے
حسینہ کی گرفتاری میں گم ہیں آج تک یارو
وہ تھا کس شوخ کا لٹکا کسی سے کچھ نہیں کہتے
بجے ہیں سات ابھی تو شام کے اپنی پڑوسن کے
ابھی سے چھاج کیوں پھٹکا کسی سے کچھ نہیں کہتے
وہ ہم۔ سے راستے میں پوچھتا ہے کب ملو گے تم
تمباکو ہم۔ نے جب غٹکا کسی سے کچھ نہیں کہتے
۔ غزل۔
وہ کہہ رہے ہیں ذرا ہم سدھر کے دیکھتے ہیں
تو ہم بھی نقل چلو انکی کر کے دیکھتے ہیں
جب آئینے میں وہ خود کو سنور کے دیکھتے ہیں
سہم سہم کے انھیں لوگ گھر کے دیکھتے ہیں
ہم اسکی پیٹھ پہ جب ہاتھ دھر کے دیکھتے ہیں
ہمیں تو چاند ستارے بھی ڈر کے دیکھتے ہی
نہ جانے کون سی شے ان میں اب بھی باقی ہے
کہ چوہے روز انہیں کو کتر کے دیکھتے ہیں
ہماری حد سے زیادہ ہے آن کی گولائی
کبھی جو جسم کو ہاتھوں میں بھر کے دیکھتے ہیں
سنا۔ ہے بچوں کو نیندوں میں خوف آتا ہے
کہ والدین اگر آنکھ۔ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ایسے سبھی اسپتال جاتے ہیں
جو لوگ اسکی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رنگ تووں سے چرا کے لایا ہے
ہم اس کے ہاتھوں میں آینہ دھر کے دیکھتے ہیں
یہ کون کشتیاں بھارت میں لڑنے آیا ہے
کہ لوگ راہ میں اسکو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ہم۔ اسکی یاد میں ہر چیز بھول جاتے ہیں
ہر۔ ایک۔ کام کو دوبارہ کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چور لفنگے ادھر نہیں جاتے
گلی میں اسکی سو ہم بھی ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ہم اسکی پیٹھ پہ جب ہاتھ دھر کے دیکھتے ہیں
ہمیں تو چاند ستارے بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
یہ اسکے سینے پہ تربوز رکھ دیا کس نے
کہ بار بار ندیدے نظر کے دیکھتے ہیں
کسی کو حسن سے مارا کسی کو جلوؤں سے
تمام زاویے ان کے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ناک ہے اسکی بڑے پکوڑے سی
بھکاری منہ میں اسے لار بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے مکھیوں کو عشق ہے بہت اس سے
مٹھائی والے اسی کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
No comments:
Post a Comment