جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر مراری لال چمپت صاحب ہر اتوار کو زیشان خان صاحب کے گھر پابندی سے تشریف لایا کرتے ہیں مراری لال چمپت صاحب کا تعلق ویسے تو بلیا ضلع سے ہےجوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر مراری لال چمپت یادو صاحب کی پیدائش بلیا میں ہوئی تھی مراری لال چمپت صاحب کی ابتدائی تعلیم بلیا کے اسکولوں میں ہوئی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے علی گڑھ ائے اور پھر یہی کہ ہو کر رہ گئے وہ دو ہفتے میرٹھ میں رہا کرتے اور کچھ دن علی گڑھ اپنی فیملی کے ساتھ گزارا کرتے ہیں وہ جب جب میرٹھ میں ہوتے ہیں اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر زیشان خان صاحب سے بھی ملتے ہیں میرٹھ میں ان کی رہائش شاستری نگر میں ہے وہیں پر ان کا ایگریکلچر لیب بھی ہے
ایک دن خان صاحب کا مجھے فون آیا انہوں نے مجھ سے کہا آج آپ چار بجے گھر تشریف لے آئیں آج گھر پر اس سردی کے موسم میں میں نے اپنے کچھ عزیز دوستوں کو مدعو کیا ہے آپ کے لئے آج پائے بنوائے ہیں اور اس کے علاوہ آج آپ کی ملاقات جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر مراری لال چمپت صاحب سے بھی کراؤں گا میرے گھر پر مراری لال چمپت صاحب آرہے ہیں ذیشان صاحب کا تعلق شہر کے معززین سے بھی ہے لیکن کبھی انہوں نے اپنے ان بڑے لوگوں سے میری ملاقات نہ کرائی تھی وہ ہمیشہ اپنے تعلقات کو پردے میں رکھا کرتے ہیں ان کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہے ان میں خاص طور پر پولیس ادھیکاری کمشنر ۔ ڈائریکٹر چاہے وہ کسی بھی فیلڈ کا ہو زیشان خان صاحب اور بڑے لوگوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے
وہ اپنے گھر پر مختلف اوقات میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے گھر پر مدعو کرتے ہیں یہ پہلا اتفاق تھا کہ وہ کسی ڈاریکٹر سے میری ملاقات کرانے جارہے تھے میری بیوی راشدہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہویے کہا کہ زیشان خان صاحب تو اپنے ہر تعلق کو مخفی رکھتے ہیں لیکن آج اس پیار کا مقصد میری سمجھ سے باہر ہے میں اپنی بیوی کی سمجھداری کا قائل ہوں وہ ہمیشہ سٹیک اور سچی بات کرتی ہے اس کی بات سن کر میں بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا کیوں کی ماضی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے تھے ۔ جس کے لئے اس نے کئی بار مجھے تنبیہ کی تھی تبھی میں نے راشدہ سے کہا ۔ارے بھئی چھوڑو ان سب باتوں کو تم تو میرا گرین سوٹ نکال دو کرتے پاجامہ میں کمشنر مراری لال چمپت کے سامنے جاتا ہوا کیا میں اچھا لگوں گا۔ اسے آپ میری کم عقلی کہیے یا عقلمندی پہلے میں ڈاریکٹر کو بھی کمشنر سمجھا کرتا تھا راشدہ نے سوٹ نکالکر رکھ دیا تھا۔ میں نے شیونگ کی اور نہا دھو کر سوٹ پہن کر تیار ہوگیا تھا ۔ اور خوشی میں میری زبان پر فلمی نغمے کے یہ بول بھی رقص کر رہے تھے ۔
*آج ان س پہلی ۔لاقات ہوگی
پھر ہوگا کیا پتہ کیا خبر *
میں ہمیشہ ہی کمشنر جیسی شہ سے متاثر ہوا ہوں میرے بچپن کی ایک یاد آج بھی مجھے مسکراتے کا موقع فراہم کرتی ہے افضال مستری کے ابا غفورا کو گلی کے سب نٹھلے چھلیا آوارہ قسم کے لونڈے لپاڑے کمشنر کہا کرتے تھے برسوں میں بھی بلاوجہ غفورا کمشنر کی عزت کرتا رہا جب زرا سا شعور آیا تب جاکر اپنی غلطی کا احساس ہوا آج تو سچ مچ کے کمیشنر سے ملاقات ہونے جا رہی تھی میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا گھر سے نکلتے ہی میں نے محلے کے چودھری اشرف سے کہا چودھری صاحب آج میری آپ سے ملاقات نہ ہو سکے گی کیوں کے آج مجھے کمشنر صاحب نے اپنےگھر دعوتِ پر مدعو کیا ہوا ہے چودھری اشرف نے منہ میں اپنی انگلی دباتے ہوئے کہا وہاں تو میاں انواع و اقسام کے کھانے ہوں گے ایک دو نوالے ہمارا نام لےکر بھی کھا لینا ہم سمجھے گے کے کمشنر صاحب کے سامنے بیٹھے ہیں پھر تو راستے میں مجھے جو بھی ملا سب سے کمشنر صاحب کی دعوت کا زکر رہا سب مجھے حیرت سے دیکھتے رہے اسی اثناء میں زیشان خان صاحب کا گھر آگیا خان صاحب کے گھر کے باہر شہر کےکچھ معززین ٹہلتے ہوئے نظر آئے جن میں
میرٹھ کے ایک چھوٹے اسکول کے مینجر چونی لال اور ان کے بھائی اٹھنی لال جو پہلے یوپی کے منسٹر بھی رہ چکے تھے ایک اور سماج وادی پارٹی کے سابق منتری جگل کشور۔ بھی تھے انکے ساتھ چاند مستری مرسلین رفوگر رفیق سوداگر عمران شیخ ۔بللو ٹائروالا رئیس لپاڑیا۔ ڈھولکی ماموں۔ یوسف ڈھانڈیا۔ اس کے علاوہ دوچار ای۔ٹی۔وی اور اخبار کے نمائندے بھی تھے جنہیں زیشان خان صاحب نے پائے کی دعوت پر مدعو کیا ہوا تھا اتنے بڑے لوگوں کی موجودگی کو دیکھ کر میں نے دانتوں تلے اپنی انگلی چبالی مجھے یقین نہیں ہو رہاتھا کہ اتنے بڑے لوگوں کے درمیان مجھے بھی زیشان خان صاحب نے دعوت دی ہے زیشان صاحب کا گھر سماج وادی گھر کہلاتا ہے جو ایکتا اور بھائی چارہ کی زندہ مثال ہے۔ میں نے بھی سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور کی بار گھر پر فون کرکے بھی ان مہمانوں کے بارے میں بتایا کہ میں کن کن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا ہوں گھر کے سب لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی بیوی نے تو یہاں تک کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ جو تم کمشنر جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر کے سامنے بیٹھے ہو۔ زیشان خان صاحب کی بیوی یعنی ہماری بھابھی بڑے لزیز کھانے بنانے میں مہارت رکھتی ہیں ان کے ہاتھ کے بنائے کھانےخان صاحب کے سب دوستوں کو پسند ہیں وہ خان صاحب سے وقتا فوقتا دعوت کی فرمائش کرتے رہتے ہیں یہ ہی وجہ ہے خان صاحب کا دماغ ساتوےآسمان پر رہتا ہے وہ اپنے ہندؤ دوستوں کو اپنی محفل میں الگ سے بلاتے ہیں زیشان خان صاحب جنہیں آج بڑا سمجھ رہے ہیں اور گھر پر دعوت میں مدعو کر رہے ہیں ان کے بارے میں مجھے نواب پہلوان نے تفصیل سےبتایا تھا کہ جنہینں آج ہم پیسے والا مانتے ہیں یہ لوگ کبھی پیسے پیسے کو ترسا کرتے تھے ان کی سماج میں کوئی حیثیت نہیں تھی اس وقت انہیں کوئی دو آنے کو بھی نہیں پوچھتا تھا آج وقت بدل گیا ہے یہ لوگ بڑے بن گئے ہیں بڑے اور خاندانی افراد آج ان کے گھر وں میں نوکریاں کرتے نظر آتے ہیں یہ بھی بڑی شان سے ان کے بارے بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بہادر شاہ ظفر کا پوتا ہےجو آج ہمارے گھر میں۔ پتائی کر رہا ہے یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ۔ جو آج بڑے بنکر خان صاحب کی محفل میں بیٹھے ہیں ان کے کارناموں کی یعنی رشوت لیتے ہوئے بہت سی ویڈیو سیڈیاں دس دس روپے میں بک چکی ہیں ۔اگر ان میں ڈرا بھی غیرت ہوتی یہ چلو بھر پانی میں کب کے ڈوب چکے ہوتے ۔ کھانا شروع ہو چکا تھا کمشنر بار بار میرے سامنے ویج بریانی کی ڈش بڑھا رہے تھے میں ان کے خلوص کا قائل ہو چکا تھا کمشنر مراری لال چمپت نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا شاعر صاحب آپ کے لئے۔ میرے پاس ایک چٹکلا لا ہے زیشان صاحب نے مراری لال چمپت سے چٹکلا سنانے کی فرمائش کی تب مراری لال چمپت نے ایک ہزار سال پرانا چٹکلا مجھے سنایا مسکرا کر چٹکلا سنارہے تھے اور ہنستے جا رہے تھے ایک شاعر مشاعرے میں کلام سنا رہے تھے جب دو چار گجلیں (غزلیں) سناچکے تب ایک پہلوان ایک موٹا سا لٹھ لے کر آگیا تھا شاعر پہلوان کو دیکھ کر ڈر گیا تھا پہلوان نے شاعر سے کہا آپ تو اپنا کویتا پاٹ کریں میں تو اس کی تلاش میں ہوں جس نے آپ کو بلایا ہے اتنا کہہ کر بے ساختہ ہنسنے لگے میں انہیں ہنستے ہوئے دیکھر میں بھی ہنس پڑا باقی مہمان اندر بیٹھک میں بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے دونوں طرح کے کھانوں کا اہتمام کیا گیا تھا ویج اور نانویج
اب تو ہر اتوار کو خانصاحب کے گھر کمشنر مراری لال چمپت سے میری ملاقات ہوتی وہ مجھے اپنی گاڑی سے گھنٹہ گھر چوراہے پر چھوڑ دیا کرتے تھے وہاں سے رکشہ میں بیٹھ کر گھر آجاتا اور کمشنر صاحب کے بارے میں سوچتا کہ اللہ نےکیسی کیسی مخلوقات دنیا میں اپنی حمدو ثناء کے لئے اتاری ہیں۔ ایک دن زیشان خان صاحب نے میری کلاس لیتے ہوئے کہا جناب آپ کو کتنی بار مراری لال چمپت صاحب کے بارے میں بتاؤں کہ یہ جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر ہیں آپ انہیں پھر بھی کمشنر کہتے ہیں یہ کمشنر نہیں ہیں یہ جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں ۔ جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر ہیں ۔ آج پوری طرح سے مراری لال چمپت میری سمجھ میں آ چکے تھے میں بلاوجہ ہی کمشنر سنجھ کر ان کی عزت کرتا رہا ۔افسوس صد افسوس اب تک مراری لال چمپت سےمیری پندرہ ملاقاتیں ہوچکیں تھی ہر بارہر ملاقات میں وہی چٹکلا مجھے سناتے میں بھی کبھی آسمان کیطرف کبھی زیشان خان صاحب کی طرف دیکھ کر مسکراکر رہ جاتا۔ یہ تو زیشان صاحب کا ہی دل گردہ ہے جو ایسے ایسے بڑے لوگوں سے اپنے تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں میں تو کب کا پاگل ہوچکا ہوتا۔ مراری لال چمپت سے جب جب ملاقات ہوتی وہ اکثر مجھ سے یہ بھی کہا کرتے آپ کو ایک دلچسپ بات زیشان صاحب کے بارے میں بتاؤں گا دوسرے دن کہتے ایک بات آپ کو چونی لال کے بارے میں بتاؤں گا تیسرے دن کہتے آپ کو ایک بات ب اٹھنی لال کے بارے میں بتاؤں گا لیکن کسی۔کے بارے میں آج تک کچھ نہیں بتایا آج تو غضب ہی ہوگیا فجر کی نماز کے بعد جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر مراری لال چمپت کا فون آیا سلام دعا کے بعد مجھ سے کہا شاعر صاحب بول رہے ہیں میں نے کہا جی ہاں میں ہی بول رہا ہوں آپ کو ایک چٹکلا سنانا ہے مشاعرے کے سلسلے میں پھر مراری لال چمپت صاحب وہی چٹکلا شاعر اور پہلوان والا سنایا پھر اس کے بعد کہا ایک دلچسپ بات آپ کو لالو پرساد کے بارے میں بتانی ہے فون سنتے سنتے میری عجیب سی کیفیت ہوگی تھی تبھی میں نے عہد کیا آج کے بعد میں اب کبھی زیشان خان صاحب کے گھر نہ جاؤں گا کسی بڑے آدمی سے نہ ملنے میں ہی میری عافیت ہے۔
No comments:
Post a Comment