Saturday, May 15, 2021

طنزومزاح کا ‏شاعر ‏ڈاکٹر ‏اعجاز ‏پاپولر

طنز و مزاح کا پاپولر

یوں تو بیسویں صدی میں طنز و مزاح کے کئی نامور شعراء  گزرے ہیں جیسےمحمد جعفری ،فرقت کاکوری، راجہ مہدی علی خاں، سلیمان خطیب، اسرار جامعی اور ساغر خیامی وغیرہ۔ان میں ہی پاپولر میرٹھی کا شمار ایک اچھے طنزو مزاح کے شاعر میں ہوتا ہے۔اپنی طنزومزاح کی شاعری کی بدولت انہوں نے دنیا کے گوشے گوشے میں شہرت اور مقبولیت پاکر اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ وہ کامیاب شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی شعر و شاعری کا شوق تھا۔ان کے والد سید نظام شاہ میرٹھ کے رؤسا میں شمار کیے جاتے تھے جو کہ ادب نواز تھے۔اپنے گھر شعر و ادب کی محفلیں اور مشاعرے منعقد کرواتے تھے۔جب گھر میں ہی شعر و ادب کا ماحول پیدا ہو تو ظاہر ہے شاعری کا شوق تو خود بخود ہوجاتا ہے اسی لیے پاپولر صاحب بچپن ہی سے شعر کہنے لگے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ شوق اور بڑھنے لگا۔ شروع شروع میں انہوں نے سنجیدہ اشعار کہے رفتہ رفتہ انہوں نے طنز و مزاح کا راستہ اختیار کیا اور وہ آج عصر حاضر میں طنز و مزاح شعراء میں ایک قابل تحسین نام بن گئے ہیں۔وہ اپنے وقت کے ایک پاپولر شاعر بن گئے ہیں اور صحیح معنوں میں اپنے نام کی طرح وہ دنیا کے ہر حصے میں پاپولر ہیں۔ ان کا اصل نام 'سید اعجاز الدین شاہ' اور تخلص' پاپولر' ہے۔وہ اپنا تعارف کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔

"پاپولر میرٹھی میرا تخلص ہے یہی اعجاز ہے
میرا جو بھی شعر ہے دنیا میں سرفراز ہے
آپریشن خوب ہی مضمون کے کرتا ہوں میں
 ذہن میرا نوک نشتر کی طرح ممتاز ہے."

‏آج دنیا میں جہاں کہیں مشاعرے ہوتے ہیں پاپولر صاحب کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان،لندن  آسٹریلیا، امریکا، دبئی، سعودی کویت، کینیڈا اور دیگر کئی ممالک کا انہوں نے سفر کیا۔ انہیں مشاعروں میں خوب داد و تحسین سے نوازا جاتا ہے۔ وہ کئی ایوارڈ سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔
دور حاضر میں انسانیت دور ہوتی جا رہی ہے۔ اگر کوئی کسی کو کچھ اچھی باتوں کی تلقین کرنا چاہتا ہے یا سیدھی راہ بتانا چاہتا ہے تو لوگوں کو برا لگتا ہے۔ ایسے دور میں جہاں انسان کا احساس اور جذبات مٹتے چلے جارہے ہیں پاپولر صاحب نے اس کو نشانہ بنا کر اپنی شاعری میں استعمال کیا اور صحیح غلط کی پہچان بتائی۔ انہوں نےعلمی، ادبی اور فکری لہروں سے اپنی شاعری کو مزین کیا۔ان کی شاعری میں سچائی کا احساس ہوتا ہے۔آج کے دور میں جہاں انسان فکروں میں الجھا رہتا ہے مشاعروں میں آکر وہ کچھ لمحوں کے لئے مسکراہٹوں اور قہقہوں میں گزارتا ہے۔سچ میں کسی کو رلانا بہت آسان ہے لیکن کسی کو دل سے ہنسانا بہت مشکل کام ہے اور پاپولر صاحب لاکھوں کروڑوں لوگوں کو مسکرانے اور قہقہے لگانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں ۔وہ ایک اچھے شاعر کے ساتھ ایک نیک دل انسان بھی ہیں۔ وہ ایک سادہ مزاج، مخلص اور ملنسار شخصیت کے مالک ہیں۔پاپولر صاحب نے اپنی شاعری میں عوامی لیڈروں کے قول و فعل کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ان کی طنزیہ شاعری سے قوم کی اصلاح ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ غلط قسم کے لیڈران کی وجہ سے ہمارا ملک ہندوستان تباہ و برباد ہو رہا ہے ہے۔
"راہ زنوں سے مت  ڈرو تم پارساؤں سے بچو
لیڈران قوم کی ظالم اداؤں سے بچو "
 پاپولر صاحب کی شاعری میں ہمیں دور حاضر کے معاشرتی زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ اس میں رونما ہونے والے روزمرہ کے واقعات کا بھی ذکر کافی دلچسپ انداز میں ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں کبھی ملک کے لیڈران کا ذکر ہوتا ہے،کبھی میاں بیوی کی نوک جھونک، کبھی سسرال والوں کے قصّے، کبھی برقع پوش خواتین اور کبھی بچوں کا نقشہ ہوتا ہے۔
ان کی نظموں میں" ملا کی بیوی", "ڈاکو کی کانفرنس", دل کانپ گیا", اور "پاگل ہوگئے امیدوار" وغیرہ شامل ہیں۔ وه اپنی تضمینوں میں مضامین کو بھی بڑی سنجیدگی اور سلیقے سے برتتے ہیں۔ یہ انہی کا اعجاز ہے کہ وہ اپنی زبان و بیان کی شیرنی، روانی اورسلاست فصاحت سے اپنی شاعری کو اس قدر دلچسپ کر دیتے ہیں کہ سننے والا اسی دنیا میں کھو جاتا ہے۔بلاشبہ ان کو کئی اشعار با زبانی یاد ہے،سچ میں ان کا حافظہ کمال کا ہے۔شاعری کے پیچھے ان کی انتھک محنت، لگن،جذبہ،مطالعہ وریاضت اور ان کی ذہانت کا راز پوشیدہ ہے۔ان کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔ ان کے فکر و شعور میں تروتازگی ہے۔ دنیا بھر کے جلوے ان کی شاعری میں بکھرے پڑے ہیں۔ان کے دو مزاحیہ شعری مجموعے "ہنس کر گزار دے"اور "ڈبل رول" منظر عام پر آچکے ہیں. ہندی میں "پاپولر کلام" اور "ہاسیئہ میو جیتے" کے علاوہ میرٹھ کے شعراء کا تذکرہ" نوائے رفتہ" اور  "بوم میرٹھی" کے کلام کی تدوین و اشاعت ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ پاپولر صاحب کے مندرجہ ذیل اشعار کافی مقبول ہوئے ہیں۔آئیے ان کی شاعری سے محظوظ ہوتے ہیں۔

"اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر تیرے توکم 
رسوائیوں کا کیا میری دفتر بنے گا تو
بیٹے کے سر پر دے کے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہوگیا ہے منسٹر بنے گا تو"


"ایک بیوی کئی سالے ہیں خدا خیر کرے
کھال سب کھنینچنے والے ہیں خدا خیر کرے
تن کے وہ اجلے نظر آتے ہیں جتنے یارو
من کے اتنے ہی کالے ہیں خدا خیر کرے"

"دنیا میں ایک بار ہی ملتی ہے زندگی
چہرے سے تو اداسی کا لیبل اتار کر دے
غم زندگی کے ساتھ یہ ہر سانس ہے مگر
میرا یہ مشورہ ہے کہ ہنس کر گزار دے"

کوثر جہاں،پونے
ریسرچ اسکالر،ممبئی یونیورسٹی۔۔۔

Wednesday, May 5, 2021

أحمد ‏علی ‏برقی

ذکرو فکرو فن پہ ہے یہ پاپولر کے وہ کتاب
ضوفشاں ہے جس میں ان کی زندگی کی آب و تاب
ان کی شہرت کا ہے ضامن ان کا وہ طنز و مزاح
چہرہ عہہد رواں کرتے ہیں جس میں بے نقاب
آج کل ہنسنا ہنسانا سب سے مشکل کام ہے
ہیں وہ اقصائے جہاں میں اس ہنر میں انتخاب
پیش کرتا ہوں مبارکباد میں اس کی انہیں
فضل حق سے ان کے ہوں شرمندہ تعبیر خواب
قدرداں ہے فکروفن کا ان کے برقی اعظمی
قایم و دایم رہے ان کی ہمیشہ آب وتاب
احمد علی برقی اعظمی

Thursday, January 7, 2021

لپک ‏جھپک ‏آسمانی

       لپک جھپک آسمانی

                  ڈاکٹر اعجاز پاپولر میرٹھی

 ہمارے بڑے بھائی شکیل عظیم کے پاس ہر جمعرات کو چار بجے تشریف لایا کرتے تھے ـ شکیل عظیم صاحب کا تعلق شہر کی چند عجیب وغریب مجزوب شخصیات سے رہا ہے ـ ان کی وہ وقتاً فوقتاً خدمت کیا کرتے ـ ان سب  میں صرف ایک لپک جھپک آسمانی  ایسے تھے جنھیں شکیل عظیم کا قرب حاصل تھا ـ لپک جھپک آسمانی سر پہ کپڑے کی ٹوپی اور شیروانی زیب تن کیے رہتے تھے ـ کہتے ہیں  کلوا پہلوان جب کشتیاں لڑا کرتا تھا اس وقت اس کا مقابلہ چیما پہلوان سے ہوا تھا ـ وہ کشتی لڑنے سے پہلے لپک جھپک  آسمانی کی خدمت میں حاضر ہوا ـ انھوں نے اس کے لئے دعا کردی تھی ـ ان کی دعا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ـ وہ جب چیما پہلوان کو کشتی میں ہرا کر واپس آیا تو اس نے خوش ہو کر  لپک جھپک آسمانی کو ایک قیمتی شیروانی بطور تحفہ دی ـ شیروانی کا تحفہ پاکر  لپک جھپک آسمانی بہت مسرور ہوئے ـ بس وہ دن اورآج کا دن ہے کبھی شیروانی کو تن سے جدا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا  ـ لپک جھپک آسمانی سے میری پہلی ملاقات شکیل عظیم صاحب کے گھر پر ہوئی تھی ـ 
   لپک جھپک آسمانی سے میرا تعارف کراتے ہوئے شکیل عظیم نے بتایا کہ یہ میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہیں ـ اتنا سنکر  لپک جھپک آسمانی مسکرائے اور عورتوں  جیسی ہنسی ہنستے ہوئے بولے ۔سگے تو نہیں ہیں ۔ سگے تو نہیں ہیں ۔ سگے تو نہیں ہیں ـ وہ ہر بات کو تین بار دہراتے تھے ـ لپک جھپک آسمانی کا تیس سال کی عمر میں ہی بڑھاپے سے سامنا ہوگیا تھا ـ ان کا ایک پیر چھوٹا تھا ـ وہ جب چلتے تو ایسا لگتا کے وہ سڑک سے کوئی چیز اٹھانا چاہ رہے ہیں لیکن اٹھا نہیں پا رہے ہیں ـ میر ا مطلب ہے کہ جھک جھک کر چلا کرتے تھے یا پھر قمر جلالوی کے اس مشہور مصرعے کے مطابق: 
میں جھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی شکیل عظیم نے مجھے آسمانی کے بارے میں بتایا کہ علمائے دین کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں مثلاﹰ  غوث ۔ قطب ۔ ابدال لپک جھپک آسمانی بھی  ان میں سے ایک ہیں ـ یہ سن کر میں نے شکیل عظیم بھائی سے کہا  : "عقل کے ناخن لو بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ یہ میلے کچیلےکپڑوں والے جو ایک ہزار سال سے  نہائے بھی نہیں  بھلا ایسے لوگوں میں یہ صفات ہوا کرتی ہیں؟ بھئی یہ سب لپک جھپک آسمانی خود کہتے ہیں  اور وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آجکل میری ڈیوٹی بیگم‌پل اور صدر بازار میں لگی ہوئی ہے  ـ  میرا کام ایک ہفتے کی ریپورٹ ابدال کو پیش کرنا ہوتی ہے  دنیا میں ہر ہر پل کا انسان امتحان دے رہا ہے ـ
 اللہ تعالٰی نے انسان کے ساتھ مختلف اوقات میں مختلف فرشتے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ جو انسان کو بُرے کاموں سے بھی روکے رکھتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالٰی نے سب انسانوں کے کندھوں پر دو فرشتے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ ایک فرشتہ دائیں کندھے پر بیٹھا ہے، دوسرا بائیں کندھے پر ـ  دائیں کندھے پر بیٹھے فرشتے کا نام کرامن ہے جبکہ بائیں کندھے پر بیٹھے فرشتے کو ہم کاتبین کہتے ہیں اور ان فرشتوں کی ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے یہ فرشتے اس کو لکھ لیتے ہیں ـ خواہ وہ اچھے کام ہوں یا بُرے کام ہوں ـ سیدھے کاندھے والا فرشتہ نماز روزہ ،یعنی  مثبت کاموں کو نوٹ کرتا ہے دوسرا فرشتہ برے کام یعنی منفی کاموں کو لکھتا ہے ـ 
 لپک جھپک آسمانی سے میری ملاقات اکثر پل بیگم اور صدر میں ہوا کرتی تھی یہ دونوں خوبصورت بازار میرٹھ کی آن بان شان ہوا کرتے ہیں ـ ایک دن میں صدر بازار جا رہا تھا آسمانی صدر سے پل بیگم کی طرف آرہے  تھے ـ اچانک میرا سامنا آسمانی سے ہو گیا ـ میں نے انھیں سلام‌کرنا چاہا  مجھے دیکھ کر بنا سلام کا جواب دئے بہت تیزی کے‌ساتھ آگے بڑھ گئے ـ  ان کا تیز تیز چلنا مجھے  بڑا عجیب لگ رہا
 تھا اور میں سوچنے لگا کہ یہ مجھے دیکھ کر  کیوں اتنی تیزی سے آگے بڑھ گئے؟  وہیں پر موہن بھی کھڑا ہوا تھا،  ہمارا پڑوسی ـ  اس نے مجھ سے کہا: " یہ ملا کون ہے؟  یہ روز ہی پل بیگم  آتا ہے ـ  ہم تو عاشق ہیں خوبصورت چہروں کی زیارت کے لئے آتے ہیں ـ پر  یہ کیوں آتا ہے؟" میں نے موہن کے سوال کا جواب دیے بغیر اپنی انگلی کو سر کے بیچ میں رکھ کر گھما دیا ـ موہن ہنسا اور بولا: " یہ کریک وغیرہ نہیں ہے بھئی بلکہ مجھے تو سی بی آئی  کا بندہ لگ رہا یا پھر کوئی جاسوس ہے ـ " 
"نہیں موہن بھائی! ایسا مت کہو ـ یہ بیچارہ غریب انسان ہے ـ "  دوسرے دن شکیل عظیم سے ملنا ہوا میں نے انھیں پل بیگم کا واقعہ سنایا شکیل بھائی نے مجھے بتایا: "آج جمعرات ہے ـ  لپک جھپک آسمانی ٹائم کے پابند ہیں ـ  اب ساڑھے تین بجے ہیں بس اب آتے ہی ہونگے ـ " "شکیل بھائی! آپ سے ایک التماس ہے جب لپک جھپک آسمانی آئیں تو ان سے کہے مجھ پر بھرو آتے ہیں ـ " "  یہ بھرو کون ہیں؟"  "بھرو ہندؤں کے ایک بڑے دیوتا ہیں جو دکھ درد سے انسانوں کو نجات دلاتے ہیں ـ " پیچھے سے ایک آواز آئی: " لپک جھپک آسمانی  آرہے ہیں ـ  آپ لوگ اندر تشریف رکھیں  میں آسمانی کو اندر لے کر آتا ہوں ـ " شکیل بھائی  نے لپک جھپک آسمانی کا پرزور استقبال کیا ـ  "آئیےآسمانی صاحب! آج کہاں کی ڈیوٹی تھی؟ " " اماں شکیل میاں! اگر ہم سے زرا بھی لغزش ہوجاتی ہے یا پھر ہمارا تعلق کسی دنیاوی انسان سے ہوجا تا ہے اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے ـ  ابدال نے بطور سزا مجھے پانچ دن کے لئے اسلام آباد اور بھومیہ کا پل سپرد کیا ہے ـ ان مسلم  علاقوں میں ڈیوٹی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ـ " لپک جھپک آسمانی بہت ہی نفیس اردو بولتے ہیں ان سے بات کرکے دل باغ باغ ہوجاتا ہے ـ  ان کے دادا غالب کے نالائق شاگردوں میں سے تھے ـ وہ عورتوں کی طرح ہنستے ہوئے مجھےاکتر بتایا کرتے: "بڑے نالائق تھےـ  بڑے نالائق تھے ـ بڑے نالائق تھے ـ " وہ ہر بات کو تین بار ادا کرتے ہیں "آئیے اندر چلتے ہیں ـ " مجھے دیکھ کر لپک جھپک آسمانی پر ایک رققت طاری ہو گئی اور ان کے منہ سے نکلنے لگا ـ "دور کردو ـ دور کردوـ  دور کردو ـ " تبھی میں نے بھی اپنی گردن گھمائی اور زور زور سے چیخنے لگا "میں بھرو ہا ہا ہا ـ میں بھرو ہاہاہا  " آسمانی چپ ہوکر مجھے دیکھنے لگے تبھی شکیل بھائی نے آسمانی کے قریب جاکر کہا:" ان پر بھرو آ گئے ہیں ـ " " کون بھرو؟" " ہندؤں کے ایک‌ بڑے دوتا جو دکھ درد سے نجات دلاتے ہیں ـ " "کون ہے یہ لپک جھپک آسمانی؟ کون ہے یہ لپک جھپک؟ میں ابھی اس کا مرغا بناتا ہوں ـ پکڑ کے رکھو اسے ـ "  اتنا سن کر آسمانی بھاگ کھڑے ہوئےـ  کہنے لگے : "شکیل! اس وقت میرے بزرگ حج پر گئے ہوئے ہیں  ـ کہہ رہے تھے کہ جب بھومیاپل کی ڈیوٹی  ختم ہو جائے گی تب آئیں گے ـ ورنہ تو میں اسکا بھروپن ابھی نکال دیتا ـ بس مجھے اب جانے دو شکیل! ورنہ بات بڑھ جائیے گی ـ " پھر اس کے بعد آسمانی کو شکیل بھائی کے گھر کی طرف کبھی نہیں دکھا ـ 
 اس طرح شکیل بھائی کو بھی ایک خبط الحواس ، نیم پاگل سے چھٹکارا ملا ـ  شکیل عظیم جب کبھی میرے گھر آ تے ہیں تو اس ذہنی مفلوج شخص کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں ـ  اور ایک نیم پاگل سے نجات دلانے کا ہمیشہ شکریہ ادا کرتے ھیں۔

جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر مراری ‏لال ‏چمپت

  جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر   مراری لال چمپت صاحب ہر اتوار کو  زیشان خان  صاحب کے گھر  پابندی سے تشریف لایا کرتے  ہیں  مراری لال  چمپت صاحب کا تعلق ویسے تو  بلیا ضلع سے ہےجوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر  مراری لال چمپت یادو  صاحب   کی پیدائش بلیا میں  ہوئی تھی مراری لال چمپت صاحب کی ابتدائی تعلیم بلیا  کے اسکولوں میں ہوئی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے علی گڑھ  ائے اور پھر یہی کہ ہو کر رہ گئے وہ  دو ہفتے میرٹھ میں رہا کرتے اور کچھ دن  علی گڑھ  اپنی فیملی کے ساتھ گزارا کرتے ہیں وہ جب جب میرٹھ  میں ہوتے ہیں  اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر زیشان  خان صاحب سے  بھی ملتے ہیں   میرٹھ میں ان کی  رہائش شاستری نگر میں  ہے وہیں پر ان کا  ایگریکلچر لیب بھی  ہے  
‌  ایک  دن خان صاحب کا  مجھے فون آیا  انہوں نے مجھ سے  کہا آج آپ چار بجے گھر تشریف لے آئیں آج گھر پر اس سردی کے موسم میں  میں نے  اپنے کچھ  عزیز  دوستوں کو مدعو کیا ہے  آپ کے لئے آج  پائے بنوائے ہیں  اور  اس کے علاوہ آج آپ کی ملاقات   جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر  مراری لال چمپت صاحب سے بھی کراؤں گا  میرے گھر پر مراری لال  چمپت  صاحب آرہے ہیں   ذیشان صاحب کا تعلق  شہر کے معززین  سے بھی  ہے لیکن کبھی انہوں نے اپنے ان بڑے لوگوں سے میری ملاقات نہ کرائی تھی وہ ہمیشہ اپنے  تعلقات کو پردے میں رکھا کرتے ہیں ان کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہے ان میں  خاص طور پر پولیس ادھیکاری کمشنر ۔ ڈائریکٹر  چاہے وہ کسی بھی فیلڈ کا ہو  زیشان خان صاحب  اور بڑے لوگوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے
‌ وہ اپنے گھر پر مختلف اوقات میں  مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے گھر پر مدعو کرتے ہیں    یہ پہلا اتفاق تھا  کہ وہ کسی ڈاریکٹر  سے میری ملاقات کرانے جارہے تھے میری بیوی راشدہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہویے کہا  کہ زیشان  خان صاحب تو اپنے ہر تعلق کو  مخفی رکھتے ہیں  لیکن  آج اس پیار  کا مقصد میری سمجھ سے باہر ہے   میں اپنی بیوی کی سمجھداری کا  قائل ہوں وہ ہمیشہ سٹیک اور سچی بات کرتی ہے اس کی بات سن کر میں بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا   کیوں کی ماضی میں کچھ   ایسے واقعات رونما  ہوئے تھے ۔ جس کے لئے   اس نے  کئی بار  مجھے تنبیہ کی تھی  تبھی  میں نے راشدہ سے کہا   ۔ارے بھئی چھوڑو ان سب   باتوں کو  تم تو   میرا گرین سوٹ نکال دو   کرتے پاجامہ میں کمشنر مراری لال  چمپت  کے  سامنے جاتا ہوا کیا میں اچھا لگوں  گا۔  اسے آپ  میری  کم عقلی  کہیے  یا عقلمندی  پہلے میں ڈاریکٹر کو بھی  کمشنر سمجھا کرتا  تھا  راشدہ نے سوٹ نکالکر رکھ دیا تھا۔   میں نے شیونگ کی اور نہا دھو کر سوٹ پہن کر   تیار ہوگیا تھا ۔ اور  خوشی میں  میری زبان پر  فلمی نغمے   کے  یہ بول بھی رقص کر رہے تھے ۔
*آج ان س پہلی ۔لاقات ہوگی
پھر ہوگا کیا پتہ کیا خبر *
میں ہمیشہ ہی کمشنر جیسی   شہ  سے متاثر ہوا ہوں میرے    بچپن کی ایک یاد آج بھی مجھے مسکراتے کا موقع فراہم کرتی ہے   افضال مستری کے ابا غفورا کو گلی کے سب  نٹھلے چھلیا آوارہ قسم کے لونڈے لپاڑے   کمشنر  کہا کرتے  تھے برسوں میں بھی   بلاوجہ غفورا کمشنر کی عزت کرتا رہا  جب زرا   سا شعور آیا   تب جاکر اپنی غلطی کا احساس ہوا آج تو سچ مچ کے کمیشنر سے ملاقات ہونے جا رہی تھی میری خوشی کا  کوئی ٹھکانہ نہ تھا  گھر سے نکلتے ہی  میں نے محلے کے چودھری اشرف سے   کہا چودھری صاحب آج میری آپ سے ملاقات نہ ہو سکے گی کیوں کے آج مجھے کمشنر صاحب نے اپنےگھر دعوتِ پر مدعو کیا ہوا  ہے  چودھری اشرف نے منہ میں اپنی انگلی  دباتے ہوئے کہا  وہاں تو میاں  انواع و اقسام کے کھانے ہوں گے ایک دو نوالے ہمارا نام لےکر بھی کھا لینا ہم سمجھے گے   کے کمشنر صاحب کے سامنے بیٹھے ہیں  پھر تو راستے میں مجھے جو بھی ملا سب سے  کمشنر صاحب کی دعوت کا زکر رہا   سب مجھے حیرت سے دیکھتے رہے   اسی اثناء میں  زیشان خان صاحب کا گھر آگیا  خان صاحب کے گھر کے باہر شہر  کےکچھ معززین  ٹہلتے ہوئے نظر آئے جن میں
‌میرٹھ کے ایک  چھوٹے اسکول  کے مینجر چونی لال  اور ان کے  بھائی اٹھنی لال  جو پہلے یوپی کے منسٹر بھی رہ چکے تھے  ایک اور سماج وادی پارٹی کے سابق منتری جگل کشور۔ بھی تھے  انکے ساتھ  چاند مستری   مرسلین رفوگر  رفیق سوداگر   عمران  شیخ  ۔بللو ٹائروالا   رئیس لپاڑیا۔   ڈھولکی ماموں۔ یوسف ڈھانڈیا۔ اس کے علاوہ  دوچار ای۔ٹی۔وی اور اخبار کے نمائندے بھی تھے جنہیں  زیشان خان صاحب نے پائے کی دعوت پر مدعو کیا ہوا تھا اتنے بڑے لوگوں کی موجودگی کو دیکھ کر  میں نے دانتوں تلے  اپنی انگلی  چبالی  مجھے یقین نہیں ہو رہاتھا کہ  اتنے بڑے لوگوں کے درمیان مجھے بھی زیشان خان صاحب نے دعوت دی ہے زیشان صاحب کا گھر سماج وادی گھر کہلاتا ہے   جو  ایکتا   اور بھائی چارہ  کی زندہ مثال ہے۔ میں نے بھی  سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا  اور کی بار گھر پر فون  کرکے بھی ان مہمانوں کے بارے میں بتایا  کہ میں کن کن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا ہوں   گھر کے سب لوگوں میں  خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی   بیوی نے تو یہاں تک کہا  کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ جو تم  کمشنر  جوائنٹ  ڈائریکٹر ایگریکلچر کے سامنے بیٹھے ہو۔ زیشان خان صاحب کی بیوی  یعنی ہماری بھابھی  بڑے لزیز کھانے بنانے میں مہارت رکھتی ہیں   ان کے ہاتھ کے بنائے کھانےخان صاحب کے  سب دوستوں کو  پسند ہیں وہ خان صاحب سے  وقتا فوقتا  دعوت کی فرمائش کرتے رہتے ہیں  یہ ہی وجہ ہے خان صاحب کا دماغ ساتوےآسمان پر رہتا ہے  وہ اپنے ہندؤ دوستوں کو اپنی محفل میں  الگ سے بلاتے ہیں زیشان خان صاحب جنہیں آج بڑا سمجھ رہے ہیں اور گھر پر  دعوت میں مدعو کر رہے ہیں  ان کے بارے میں مجھے  نواب پہلوان نے تفصیل سےبتایا تھا کہ جنہینں آج ہم پیسے والا مانتے ہیں   یہ لوگ  کبھی پیسے پیسے کو ترسا کرتے تھے   ان کی سماج میں کوئی حیثیت نہیں تھی اس وقت   انہیں کوئی دو آنے کو بھی نہیں پوچھتا تھا آج وقت بدل گیا ہے  یہ لوگ بڑے بن گئے ہیں   بڑے اور خاندانی افراد آج ان کے گھر وں میں نوکریاں کرتے نظر آتے ہیں یہ بھی  بڑی شان سے  ان کے بارے بتاتے  ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اور کہتے  ہیں یہ بہادر شاہ ظفر کا پوتا  ہےجو آج ہمارے گھر میں۔   پتائی کر رہا ہے  یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ۔ جو آج بڑے بنکر خان صاحب کی محفل میں بیٹھے ہیں ان کے کارناموں کی یعنی رشوت لیتے ہوئے بہت سی    ویڈیو سیڈیاں  دس دس روپے میں بک چکی  ہیں  ۔اگر ان میں ڈرا بھی غیرت ہوتی  یہ چلو بھر پانی میں کب کے ڈوب چکے ہوتے  ۔    کھانا شروع ہو چکا تھا کمشنر بار بار میرے سامنے ویج  بریانی کی ڈش بڑھا رہے تھے  میں ان کے خلوص کا  قائل ہو چکا تھا کمشنر  مراری لال چمپت نے  مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا شاعر صاحب آپ کے لئے۔ میرے پاس ایک چٹکلا لا ہے   زیشان صاحب نے مراری لال چمپت سے چٹکلا  سنانے   کی فرمائش کی تب مراری لال چمپت نے ایک ہزار سال پرانا چٹکلا  مجھے سنایا  مسکرا کر  چٹکلا  سنارہے تھے اور ہنستے جا رہے تھے ایک شاعر مشاعرے میں کلام سنا رہے تھے جب دو چار گجلیں (غزلیں) سناچکے تب ایک پہلوان ایک موٹا  سا لٹھ لے کر آگیا  تھا شاعر پہلوان کو دیکھ کر ڈر گیا تھا   پہلوان نے شاعر سے کہا آپ تو  اپنا کویتا  پاٹ کریں   میں تو اس کی تلاش میں ہوں  جس نے آپ کو بلایا ہے اتنا کہہ کر بے ساختہ ہنسنے لگے  میں انہیں ہنستے ہوئے دیکھر میں بھی ہنس پڑا باقی مہمان اندر  بیٹھک   میں بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے  دونوں طرح کے کھانوں کا اہتمام کیا گیا تھا   ویج اور نانویج
   اب تو  ہر اتوار کو خانصاحب کے گھر کمشنر  مراری لال چمپت  سے میری ملاقات ہوتی وہ مجھے اپنی گاڑی سے گھنٹہ گھر چوراہے پر چھوڑ دیا کرتے تھے  وہاں سے رکشہ میں بیٹھ کر گھر آجاتا اور کمشنر صاحب کے بارے میں سوچتا   کہ اللہ  نےکیسی کیسی  مخلوقات  دنیا میں اپنی حمدو ثناء کے لئے اتاری ہیں۔ ایک دن  زیشان خان صاحب نے میری کلاس لیتے ہوئے کہا  جناب آپ کو کتنی بار مراری لال چمپت  صاحب کے بارے میں بتاؤں  کہ یہ جوائنٹ ڈائریکٹر  ایگریکلچر ہیں آپ انہیں پھر بھی کمشنر کہتے ہیں یہ کمشنر نہیں  ہیں  یہ جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں ۔ جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر ہیں ۔  آج پوری طرح سے مراری لال چمپت  میری  سمجھ میں آ چکے تھے میں بلاوجہ   ہی کمشنر سنجھ کر ان کی عزت کرتا رہا ۔افسوس صد افسوس  اب تک مراری لال چمپت   سےمیری پندرہ ملاقاتیں ہوچکیں تھی  ہر بارہر ملاقات میں وہی  چٹکلا مجھے  سناتے  میں بھی کبھی آسمان کیطرف کبھی زیشان خان صاحب کی طرف دیکھ کر  مسکراکر رہ جاتا۔   یہ تو زیشان صاحب کا ہی دل گردہ ہے جو ایسے ایسے بڑے لوگوں سے اپنے تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں میں تو کب کا پاگل ہوچکا ہوتا۔  مراری لال چمپت   سے جب جب ملاقات ہوتی وہ اکثر مجھ سے یہ بھی کہا کرتے  آپ کو ایک دلچسپ بات زیشان صاحب کے بارے میں بتاؤں گا دوسرے دن کہتے ایک بات آپ کو چونی لال  کے بارے میں بتاؤں گا تیسرے دن کہتے آپ کو ایک بات ب اٹھنی لال کے  بارے میں بتاؤں گا لیکن کسی۔کے بارے میں آج تک  کچھ نہیں بتایا   آج تو غضب ہی ہوگیا فجر کی نماز کے بعد جوائنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر  مراری لال چمپت  کا فون  آیا سلام دعا کے بعد مجھ سے کہا  شاعر صاحب بول رہے ہیں میں نے کہا جی ہاں میں ہی بول رہا ہوں  آپ کو ایک چٹکلا  سنانا ہے مشاعرے کے سلسلے میں پھر مراری لال چمپت  صاحب وہی چٹکلا  شاعر اور پہلوان والا سنایا    پھر اس کے بعد کہا ایک دلچسپ بات آپ کو   لالو پرساد کے بارے میں بتانی ہے  فون سنتے سنتے  میری عجیب سی کیفیت  ہوگی تھی  تبھی میں نے عہد کیا آج کے بعد میں اب کبھی زیشان خان صاحب کے گھر نہ جاؤں گا  کسی بڑے آدمی سے نہ ملنے میں ہی میری   عافیت ہے۔


Tuesday, January 5, 2021

‎ ‎ ‎ ‎ٹو‏ ‎ ‎پروفیسر عبدالشکور

*
*پروفیسر عبدالشکور ٹو ٢* 

              
پروفیسر عبدالشکور  ریٹائرمنٹ کے بعد۔ کبھی  حیدرآباد۔ دہلی   لکھنؤ ۔  کلکتہ  ۔ ممبئی۔ بنگلور۔ ان بڑے شہروں کے سفر میں  رہا کرتے ہیں ۔ جیسا کہ وہ مجھے اکثر  فون پر  بتایا  کرتے ہیں ۔ خدا جانے پروفیسر کی  یہ سب باتیں کتنی سچائی پر مبنی ہیں۔ یا پھر سفید جھوٹ کا پلندہ  ؟ 
میرے پاس پروفیسر عبدالشکور کا جب بھی فون آتا وہ  کسی بڑے شہر کا حوالہ دیتے ہوئے  مجھ سے کہتے ہیں کہ میں فلاں فلاں شہر میں  گورنر ہاؤس میں رکا ہوا ہوں. میں پرسوں  میرٹھ  پہونچ رہا ہوں ۔لیکن جب جب میرٹھ میں ہوتے ہیں .کبھی بھی   مجھے فون تک  نہ کیا  ۔کل رات ایک شعری نشست سے جس وقت میں  گھر لوٹا تبھی  پروفیسر عبدالشکور کا  رات بارہ بجے فون آیا  کہ میں کل دس بجے تک میرٹھ پہونچ رہا ہوں . میں یہاں لکھنؤ ایک سمینار کے سلسلے میں آیا ہوا تھا  محترم  گردھاری  لال شرما  آئی اے ایس     سمینار کی صدارت کر رہے تھے  جیسے ہی میرا  مقالہ بلبل سنا ۔   بہت خوش ہوئے ۔اور دوسرے دن  اپنے محل نما گھر میں  میرے اعزاز میں بڑے عشائیہ کا اہتمام کیا ۔ لکھنؤ شہر کے سبھی معزز لوگ بھی  اس عشائیہ  میں شامل تھے۔ وہاں کچھ لوگوں نے بھانپ لیا کہ میں شاعر بھی ہوں۔ ایک شخص جو ممبئی میں  رنگ بھون کے مشاعرے میں موجود تھا  ۔ اس نے محترم گردھاری لال  شرما جی کو بتایا کہ سر   پروفسر عبدالشکور  کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں یہ ہندوستان کے بڑے  عظیم  شاعر ہیں ۔ میں نے انکا جلوہ ممبئی میں اپنی آنکھوں  سے  دیکھا ہے ۔ کہاں دلیپ کمار  ۔کیفی اعظمی۔  جاں نثار اختر۔  جاوید اختر کے ابا ۔ مجروح سلطانپوری۔  میوزک  ڈائریکٹر نوشاد۔ قتیل شفائی ۔احمد فراز ۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ۔ جہاں اس پانے کے شاعر موجود ہوں اور  پروفیسر عبدالشکور کے کلام پر داد دے رہے ہوں  اس بات سےہی شاعر کی عظمت کا اندازہ  لگایا جاسکتا ہے  میری  بات کی تائید  پولیس کمشنر  رام بھروسے  جی نے بھی کی پھر تو سب لوگ جو عشائیہ میں شامل تھے  مجھ سے سبھی  فرمائش کرنے لگے کچھ تو پروفیسر  صاحب  عنایت کیجیے گا   تبھی  اپنی چپی کو توڑتے ہوئے  گردھاری لال  شرما  آئی اے ایس جی  نے مجھ سے  میری وہ نظم ،،غربت،، جو دنیائے ادب میں بد نام زمانہ ہے اور اردو ادب کا قیمتی سرمایہ بھی ہے  اس  کی فرمائش کی ۔سب  لوگ  حیرت زدہ ہو کر  گردھاری لال شرما جی  کی طرف   دیکھنے لگے  ۔سب نے باآواز بلند کہا   سر آپ بھی   ۔ گردھاری لال جی   مسکراتے اور  گویا ہوئے  آپ سب لوگ ہی نہیں  میں بھی  پروفیسر عبدالشکور کو  ہائی سکول کے زمانے سے   فالو کر رہا ہوں  ان کی نظم  ،،غربت ،،کے منتر کو  میں نے اپنے   جیون میں اتار لیا تھا یہی وجہ کہ  میں سب کو  حق و انصاف کے  آئینے سے دیکھتا  ہوں  اور  ہر رات  پروفیسر عبدالشکور کی نظم  غربت   میرے مطالعہ میں رہتی ہے جس کو پڑھے  بغیر میں  سو نہیں سکتا ۔ 
 بگھوان   آپ کو لمبی آیو دے۔ ایسا کہا   گردھاری لال شرما  جی نے ۔ 
سب کے بحد اسرار پر میں نے اپنی نظم  ۔غربت،، پیش کی  پہلے بند سےہی ہر شخص پر  نظم کا سحر طاری ہو چکا تھا   آخری بند پر آتے آتے  سب زاروقطار رو  رہے تھے ۔  روتے روتے  پولیس کمشنر  رام بھروسے جی نے مجھ سے  کہا بس کرو عبدالشکور جان ہی لے لوگےکیا ؟ فون پر یہ  ڈھیر ساری بات کرکے  مجھ سے  کہا یہ سب باتیں  زیشان خان کو  ضرور بتانا کیوں کہ انکا  رجحان آج کل شہر کے بڑے بڑے   پولیس آفیسر کی طرف زیادہ رہتا ہے آج کل وہی زیشان  خان  صاحب کے باغ کے آم‌  کھا رہے ہیں اور ہاں ۔ شہر کے لوگوں کو بھی میری اہمیت کے بارے میں ضرور بتانا تبھی تو  میری عزت میں  وہ چار چاند لگائیں گے۔ ‌  گردھاری لال  شرما جی بڑے دل کے انسان ہیں انھوں نے  میری پذیرائی  ادبی سفیر کی حیثیت سے کی مجھے جو عزت ملی اور اعزاز سے الگ نواز گیا  یہ سب  باتیں زیشان خان صاحب  کی    
 نیند اڑانے کے لیے کافی ہونگی  اچھا اب میں فون رکھتا ہوں  کل میرٹھ آنے پر باقی  باتیں ہونگی ابھی کلکتہ سے مکھیہ منتری  بنگال  ممتا بینرجی  کے پی ۔اے۔ کا فون آرہا ہے  زرا ان سے بھی پوچھ لوں کہ وہ  کیا چاہتے ہیں
اچھا تو پھر انشاللہ کل ملاقات ہورہی ہے ۔     
   جی بہتر ہے پروفیسر صاحب یہ کہہ کر   میں نے فون رکھ دیا۔  بستر پر لیٹتے ہی  پروفیسر عبدالشکور کے وہ سارے فون ایک ایک کرکے یاد آنے لگے ۔   جو انھوں  نے مختلف شہروں سے مجھے  کیے تھے . لوکڈاون سے پہلے کا  فون جو انھوں نے  مجھے موریشس سے کیا تھا فون پر  مجھے بتایا کہ وہ  آجکل  موریشس  کے نائب صدر رؤف بندھن جی کے ساتھ ان کے گھر پر موجود ہیں۔  رؤف صاحب  نائب صدر  موریشس مجھے    اردو ورڈ  کانفرنس سے اپنے گھر لے آیے تھے  رؤف صاحب  جس گھر میں رہ رہے تھے ۔ وہ ایک عالیشان محل تھا جسے وہ غریب خانہ بتارہے تھے پڑی انکساری سے کام لے رہے تھے  سچ میں رؤف صاحب ایک بڑے دل کے انسان ہے  رؤف صاحب سے میرا پہلا تعارف  تھا ایک گھنٹے  گفتگو  کے بعد انکشاف ہوا وہ بھی میری نظم غربت  کےدیوانے ہیں۔  کانفرنس میں موریشس کے  نائب صدر کے علاوہ  مورشیس کے صدر  محترم  نے بھی اردو ورلڈ  کانفرنس کو  خطاب کرتے ہوئے کہا  جہاں دنیائے ادب کی نامور شخصیات و ادیب  موجود ہیں وہاں محترم پروفیسر عبدالشکور  کی شخصیت کسی   کوہ نور ہیرے سے کسی طرح  کم نہیں ہے کانفرنس میں  جتنی بھی  اہم شخصیات تھی ۔سبھی نے کھڑے ہوکر  تالیاں بجا کر مورشیس کے صدر کی بات کی تائید کی غیر ملک میں   اپنی اتنی عزت اور پذیرائی دیکھ کر میں آبدیدہ ہو گیا تھا ۔ کانفرنس کے اختتام پر  صدر محترم مورشیس نے  مجھے اپنے ساتھ چلنے کے‌ لئے کہا تبھی  نائب صدر رؤف صاحب  نے ان سے  دودن کے لئے مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت چاہی  طے یہ ہوا  دودن رؤف بندھن جی کے ساتھ اور دو دن  مورشیس کے صدر کے  ساتھ  رہنا ہوگا  رؤف صاحب  نے  مجھے بتایا  کہ آپ کی نظم غربت۔ کے دیوانے  ہمارے ملک موریشس کےراسٹپتی(president )بھی ہیں۔  ہاں  اور ایک بات تو میں تمیں بتانی بھول گیا  موریشس کے  بہت سے طالب علموں نے  مورشیس حکوت سے  مانگ کی ہے  کہ پروفیسر عبدالشکور کی  نظم    غربت   کو  کورس میں شامل کیا جائے  اور موریشس حکومت نے  ایک حد تک طالب علموں کی بات مان لی ہے   بس اس فیصلے پر ایجوکیشن منسٹر کے سگنیچر ہونے باقی ہیں   موریشش ایک سیکولر  ملک ہے    خوبصورت ہے  اس چھوٹے سے ملک میں قومی ایکتا  پیار محبت بھائی چارہ  ہر طرف بکھرا پڑا ہے  حد تو یہ ہے کہ لوگوں کے نام بھی ایکتا کی مثال ہیں  جیسے اسلام بھجن۔  پنڈت سلیم ۔   اور خود  موریشس کے نائب صدر  رؤف بندھن صاحب  یہاں ہندؤ مسلم کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتے ہیں ۔ یہ  پیار محبت  ایکتا  پہلے ہمارے ملک ہندوستان کا زیور تھی اب ہمیں  اس قیمتی زیور سے اپنے ہندوستان کو پھر سے  مزین  کرنا ہوگا یعنی  سجانا ہوگا  اس کے لئے خوب جدوجہد کرنی ہوگی  اور  پھر سے وہی بھائی چارا قائم کرنا ہوگا  تبھی ہم دنیا کی نظروں میں ایکتا کی مثال بنکر ابھریں گے   اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کو  پاکر رہیں گے؟  پرسوں موریشس سے میری روانگی ہے انشاءاللہ چھ بجے تک دہلی پہونچ رہاہوں بہت جلد آپ سے ملاقات ہوگی  اور  بہت سی باتیں آپ کے پاس  بیٹھ کر بھی ہونگی  اچھا اب فون رکھتا ہوں  پٹنہ سے مکھیہ منتری نتیش جی  کے آفیس سے  فون آرہا ہے  اور ہاں یہ سب  باتیں زیشان خان کو ضرور بتانا   خان کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں ہا ہا ہا پروفیسر عبدالشکور ہنستے ہوئے فون رکھ دیتا ہے  ادھر میری آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی  میری بیچینی کو دیکھتے ہوئے  راشدہ نے آدھی نیند کی گولی دی  تب کہیں جاکر  ایک گھنٹے بعدنیند آئی   میری بیوی راشدہ نے  اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کہا  آپ اب اس عبدالشکور کا فون اٹھنا بند کریں ورنہ میں میکے چلی جاؤ نگی میکے کا نام سنتے ہی میں نے کچھ  راحت کی سانس لی۔    راشدہ نے پھر غصے سے کہا کہ اس عبدالشکور کا پیچھا چھوڑ دیجئے  جن بڑی شخصیات کا ہم نے فوٹو تک نہیں دیکھا یہ  پروفیسر ان سے کتنی آسانی سے مل لیتا ہے ۔  رات کو میں خواب دیکھتا ہوں  کہ زیشان خان صاحب اپنے اسکوٹر پر آموں کی دو بیٹیاں  لئے کہیں جا رہے ہیں  میرے پوچھنے پر بتایاکہ   شہر میں پولیس کے  ایک بڑے ادھیکاری آئے ہوئے ہیں انھیں اپنے باغ کے آم دینے جارہا ہوں  ,  تبھی میرے منہ سے  نکلا  پروفیسر عبدالشکور  ٹھیک ہی کہہ رہاتھا کیا کہہ رہا تھا  زیشان صاحب نے مجھے جھنجھوڑ کر پوچھا میں نے وہ ساری باتیں خان صاحب کو بتادیں جو انہوں نے  فون کرکے  لکھنؤ اور موریشس سے کی تھیں  یہ سب سنکر خان صاحب اپنا تھوک سٹکتے ہوئے بولے   کیا پروفیسر عبدالشکور کی اتنی پہنچ اتنی  بڑی بات ہو گئی ہے  کیا عبدالشکور صاحب  اس وقت  گھر پر ہونگے پتہ نہیں میرے پاس تو  عبدالشکور  کا صرف  فون ہی آتا ہے پھر  میں کیا   دیکھتا ہوں  خان صاحب کے اسکوٹر  کا رخ  پروفیسر عبدالشکور کے  گھر کی طرف  ہو جاتا ہے  اور ادھر میں سوچنے لگتا ہوں کہ خان صاحب کب  غریبوں کے بارے میں   سوچیں گےیہ تو ہمیشہ بڑے لوگوں کو متاثر کرنے پر لگے رہتے ہیں کاش یہ غریبوں کا درد محسوس کریں اور  حاتم طائی کی طرح سوچیں جسے ہی  میری آنکھ کھلی میں نے بیگم کو اپنے سرہانے   کھڑے پایا    کیا پھر کوئی خواب دیکھ رہے تھے۔ پروفیسر عبدالشکور کا   ہاں راشدہ رات تو بڑا عجیب وغریب خواب دیکھا  پروفیسر عبدالشکور تو خواب میں  ندارد تھا لیکن زیشان خان نظر  آئے
 وہی آم وغیرہ دیکھے ہونگے  بلکل سچ۔ راشدہ ‌وہ دو بیٹیاں آموں کی لے کر  پروفیسر عبدالشکورصاحب کے گھر کی طرف  جا رہے تھے  بڑا اچھا خواب ہے ہوسکتا ہے  آج زیشان صاحب ہمارے گھر بھی‌آم لے آئیں ممکن ہے  میں نے راشدہ کی بات پر سر ہلایا   میں ابھی  راشدہ سے بات کرہی رہاتھا تبھی فون کی گھنٹی بجی  میں  نے ڈرتے ڈرتے فون اٹھایا    ادھر سے آواز آئی  ہلو  میں پروفیسر عبدالشکور بول رہا ہوں  اسلام علیکم پروفیسر صاحب کیسے مزاج ہیں  (میں نے فون پر ہاتھ رکھر کہا  لو راشدہ شیطان کا نام لیاشیطان حاضر)     کیا میرٹھ پہونچ گئے  سر  ؟   نہیں۔ ابھی نہیں میں سیدھا  ایرپورٹ سے  کیجریوال جی  کے گھر آگیا ہوں  آج میرٹھ آنے کا پکا ارادہ تھا  لیکن جہاز میں میرے ساتھ  کرن بیدی  صاحبہ پڈوچیری کی لیفٹیننٹ گورنر  بھی میرے ساتھ  موجود  تھی   انھوں نے فون کرکے دہلی کے وزیر اعلی کیجریوال جی کو میری آمد  کےبارے میں بتادیا تھا ۔ 
سر وہ تو مخالف گروپ سے ہیں  ارے بھئی آپ بہت معصوم ہیں سیاست میں  سب ملے رہتے ہیں کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوتا ہے  سمجھے  ذرا ہولڈ پر دہنا   مکھیہ  منتری کیجریوال صاحب کے  آفیس سے  فون آرہا ہے کچھ دیر بعد پھر مجھ سے مخاطب ہوتے   ہیں  ہلو  ہاں  سر ارے بھئی کیجری وال جی  کا فون تھا وہ خود ہی ایرپورٹ آرہے ہے   مجھے  لینے کے واسطے ان کے سا تھ نائب  مکھیہ منتری  بھی ہیں۔ 
  کیجری وال جی  کے پاس دودن رکنا پڑے گاانھوں نے   ودھان سبھا میں  میرے اعزاز میں  ایک محفل رکھ دی ہے کل انشاللہ  تمیں پوری ریپورٹ دوں گا ابھی فون رکھتا ہوں ذرا  ممبی سے امبانی کا فون آرہا ہے یہ سب باتیں زیشان خان کوضرور  بتانا اس کی   نیندیں  اڑانے کے لئے کافی ہیں فون رکھتے ہی راشدہ نے میری کلاس لی۔  مل گئی فرصت پروفیسر عبدالشکور کے  فون سے؟    کیا فرصت مل گئی  دراصل راشدہ  میں میری ساری تعلیم‌ پروفیسر عبدالشکور  صاحب کی نگرانی میں  ہوئی ہے  وہ احساس کمتری کا شکار ہیں  وہ قابل تو ہیں  لیکن انہیں  ان کی قابلیت کے حساب سے منسب نہیں ملا ہے وہ بڑی بڑی باتیں کرکے  اپنے اثرورسوخ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں    وہ چاہتے ہیں سماج میں ان کے بھی کام کی تعریف ہو تم تو راشدہ جانتی ہو مجھے شاعری میں  اپنا مقام بنانے کے لئے  زندگی کا ایک بڑا حصہ دینا پڑا  رات دن محنت کی  تب کہیں جاکر کچھ لوگوں میں پہچان بنا پایا ہوں میرے بارے میں سن سن کر  پروفیسر عبدالشکور صاحب مجھے بھی متاثر کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے  وہ مجھے جگہ جگہ سے فون کرکے بتاتے رہتے کی مجھے کم مت آنکنا   اگر تم سماج  میں کچھ شہرت رکھتے ہو  تو  میں بھی کسی طرح  تم سے کم نہیں ہوں ۔ اور فون کے اخیر میں وہ یہ کہنا نہیں بھولتے  یہ سب باتیں زیشان۔ صاحب کوضرور  بتائیں  راشدہ پروفیسر  عبدالشکور  ان لوگوں کے ساتھ مجھے بھی متاثر کرنا چاہتے ہیں   یہ سب باتیں کرکے  انہیں قلبی سکون ملتا ہے  میں جانتا ہوں  وہ جن بڑی اہم شخصیات کا زکر  فون پر میرے ساتھ کرتے ہیں شاید ہی  زندگی میں    کبھی ان سےملے ہوں  آج  
‌کسی بھی وقت  عبدالشکور کا   فون آتا ہوگا  وہ کیجری وال جی  کے پاس دہلی میں  رکے ہوئے ہیں جیسا انھوں نے مجھ سے کہا  میں ابھی راشدہ سے بات کر ہی رہا تھا تبھی  بیل بجی  میں نے  فون اٹھایا  ادھر سے  پروفیسر عبدالشکور کی آواز آئی ہلو  خیریت ہے جناب  جی سر   سب آپ کی  دعائیں ہیں  جناب کل ودھان سبھا میں جو ادبی سیمنار ہوا اسکا جواب نہیں تھا  ایسی پذیرائی  تو    ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے محل میں بھی  نہیں کی  تھی  جبکہ ایران کا دسترخوان ساری دنیا میں مشہور ہےحسن روحانی جی نے دنیا جہان کے کھانے دسترخوان پر  لگا دیے تھے۔  میں  حسن روحانی کی دعوت پر دو دن کے لئے ایران  چلا گیا تھا  یہ سب مجھے یہاں آکر  کیجری  وال جی  کی مہمان نوازی دیکھر احساس ہوا  انھوں نے   وہ جم کر خدمت کی اور کیا زبردست محفل تھی  دہلی کی سب ہی  معزز شخصیات اور گورنر کی موجود گی محفل میں چار چاند لگا رہی تھی  سبھی نے میری نظم غربت کی تعریف کی لیکن   نظم کا زیادہ اثر کیجری وال جی اور شہر کے معزز  لوگوں  پر ہوا ان سب کا  رونا تو   مجھ سے بھی نہ دیکھا گیا  اتفاق   دیکھئے   اسی وقت  اناہزارے جی   کا فون آیا  میں نے سب سے معزرت  چاہی  ہزارے جی  کا فون سنا میں نے انہیں  بتایا کہ میں اس وقت دہلی ودھان سبھا میں موجود ہوں  انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے علم ہے  مجھے دہلی کے گورنر نے بتادیا تھا   پروفیسر عبدالشکور  تم اپنی نظم غربت  کیجری وال جی کو ایک بار اور سناؤ تاکہ  وہ سب کو حق انصاف کی عینک سے دیکھیں  اور کسی سے مذہب کی بنیاد پرکوئی بھید بھاؤ نہ کریں جب کیجریوال جی  کو دوبارہ نظم سنائی خود بخود ان  کے منہ سے نکلنے لگا کہ اب میں سب کے ساتھ  انصاف کروں گا ۔ اب میں سب کے ساتھ  انصاف کروں گا ودھان سبھا کی محفل ایک بجے اختتام  پذیر ہوئی   گورنر صاحب نے مجھے  اشوکا ہوٹل چھوڑ دیا  تھا  انشاللہ کل دوبجے تک میرٹھ پہونچ رہا ہوں یہ سب باتیں زیشان خان کو ضرور بتانا   یہ اس کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں  اب فون رکھتاہوں   امیتابھ بچن کا فون آرہاہے خدا حافظ  کل اچانک  صبحِ چھ  بجے  پروفیسر عبدالشکور کے  بڑے لڑکے ارسلان کا فون آیا  ادھر سے  سلام کے بعد ارسلان کی آواز آئی  انکل آپ خیریت سے ہیں  ہاں ارسلان بیٹے  سب خیریت ہے   تم سناؤ اتنی سویرے فون کس  لئے کیا  انکل کل پاپا علی گڑھ گئے تھے  لیکن رات سے ان کا فون نہیں مل رہا ہے  میں نے سوچا کہ انکل سے معلوم کروں  شاید میرٹھ چلے گئے ہوں   ہاں ارسلان  پروفیسر عبدالشکور صاحب کا  پرسوں فون آیا تھا وہ  دہلی میں مکھیہ منتری کیجری وال جی  کے پاس تھے   وہ موریشس سے  آتے ہوئے دہلی روک  گئے تھے  ادھر سے ارسلان کی ہنسی آواز سنائی  دیتی  ہے   انکل وہ تو ایک ہفتے سے گھر سے باہر نہیں   نکلے ہیں  کل ہی علی گڑھ گئے تھے کہہ رہے کہ وہ رات تک گھر پہونچ جائیں گے   رہا موریشس  رہلی جانے کا وہ تو سفر سے بھی بہت گھبراتے ہیں  علی گڑھ  بھی خالو کے ساتھ گئے تھے  اور  ہاں باہر جانے کا تو سوال  ہی پیدا نہیں ہوتا  انھوں نے تو آج تک اپنا  پاسپورٹ   تک نہیں بنوایا  انکل جیسے ہی پاپا کی  کوئی خبر ملے  مجھے فون ضرور کیجئے گا  اممی بہت پریشان ہیں اچھا اب  فون رکھتا ہوں 
‌  ارسلان بیٹے  
‌   جی انگل
‌  بیٹے  اگر پاپا گھر آجائیں تو انھیں مت  بتانا کیا کہ تم نے مجھے بھی  فون کیا تھا 
‌جی انکل بہتر ہے 
‌دیکھا راشدہ مجھے تو پہلے سے پتہ تھا یہ پروفیسر عبدالشکورفروڈیا  ہے   ادھر ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کھلکھلا کر ہنس پڑے  اور ہم دونوں کے منہ سے  بے اختیار نکلا
‌  اللہ سمجھے گا تجھے عبدالشکور*