Tuesday, January 5, 2021

‎ ‎ ‎ ‎ٹو‏ ‎ ‎پروفیسر عبدالشکور

*
*پروفیسر عبدالشکور ٹو ٢* 

              
پروفیسر عبدالشکور  ریٹائرمنٹ کے بعد۔ کبھی  حیدرآباد۔ دہلی   لکھنؤ ۔  کلکتہ  ۔ ممبئی۔ بنگلور۔ ان بڑے شہروں کے سفر میں  رہا کرتے ہیں ۔ جیسا کہ وہ مجھے اکثر  فون پر  بتایا  کرتے ہیں ۔ خدا جانے پروفیسر کی  یہ سب باتیں کتنی سچائی پر مبنی ہیں۔ یا پھر سفید جھوٹ کا پلندہ  ؟ 
میرے پاس پروفیسر عبدالشکور کا جب بھی فون آتا وہ  کسی بڑے شہر کا حوالہ دیتے ہوئے  مجھ سے کہتے ہیں کہ میں فلاں فلاں شہر میں  گورنر ہاؤس میں رکا ہوا ہوں. میں پرسوں  میرٹھ  پہونچ رہا ہوں ۔لیکن جب جب میرٹھ میں ہوتے ہیں .کبھی بھی   مجھے فون تک  نہ کیا  ۔کل رات ایک شعری نشست سے جس وقت میں  گھر لوٹا تبھی  پروفیسر عبدالشکور کا  رات بارہ بجے فون آیا  کہ میں کل دس بجے تک میرٹھ پہونچ رہا ہوں . میں یہاں لکھنؤ ایک سمینار کے سلسلے میں آیا ہوا تھا  محترم  گردھاری  لال شرما  آئی اے ایس     سمینار کی صدارت کر رہے تھے  جیسے ہی میرا  مقالہ بلبل سنا ۔   بہت خوش ہوئے ۔اور دوسرے دن  اپنے محل نما گھر میں  میرے اعزاز میں بڑے عشائیہ کا اہتمام کیا ۔ لکھنؤ شہر کے سبھی معزز لوگ بھی  اس عشائیہ  میں شامل تھے۔ وہاں کچھ لوگوں نے بھانپ لیا کہ میں شاعر بھی ہوں۔ ایک شخص جو ممبئی میں  رنگ بھون کے مشاعرے میں موجود تھا  ۔ اس نے محترم گردھاری لال  شرما جی کو بتایا کہ سر   پروفسر عبدالشکور  کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں یہ ہندوستان کے بڑے  عظیم  شاعر ہیں ۔ میں نے انکا جلوہ ممبئی میں اپنی آنکھوں  سے  دیکھا ہے ۔ کہاں دلیپ کمار  ۔کیفی اعظمی۔  جاں نثار اختر۔  جاوید اختر کے ابا ۔ مجروح سلطانپوری۔  میوزک  ڈائریکٹر نوشاد۔ قتیل شفائی ۔احمد فراز ۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ۔ جہاں اس پانے کے شاعر موجود ہوں اور  پروفیسر عبدالشکور کے کلام پر داد دے رہے ہوں  اس بات سےہی شاعر کی عظمت کا اندازہ  لگایا جاسکتا ہے  میری  بات کی تائید  پولیس کمشنر  رام بھروسے  جی نے بھی کی پھر تو سب لوگ جو عشائیہ میں شامل تھے  مجھ سے سبھی  فرمائش کرنے لگے کچھ تو پروفیسر  صاحب  عنایت کیجیے گا   تبھی  اپنی چپی کو توڑتے ہوئے  گردھاری لال  شرما  آئی اے ایس جی  نے مجھ سے  میری وہ نظم ،،غربت،، جو دنیائے ادب میں بد نام زمانہ ہے اور اردو ادب کا قیمتی سرمایہ بھی ہے  اس  کی فرمائش کی ۔سب  لوگ  حیرت زدہ ہو کر  گردھاری لال شرما جی  کی طرف   دیکھنے لگے  ۔سب نے باآواز بلند کہا   سر آپ بھی   ۔ گردھاری لال جی   مسکراتے اور  گویا ہوئے  آپ سب لوگ ہی نہیں  میں بھی  پروفیسر عبدالشکور کو  ہائی سکول کے زمانے سے   فالو کر رہا ہوں  ان کی نظم  ،،غربت ،،کے منتر کو  میں نے اپنے   جیون میں اتار لیا تھا یہی وجہ کہ  میں سب کو  حق و انصاف کے  آئینے سے دیکھتا  ہوں  اور  ہر رات  پروفیسر عبدالشکور کی نظم  غربت   میرے مطالعہ میں رہتی ہے جس کو پڑھے  بغیر میں  سو نہیں سکتا ۔ 
 بگھوان   آپ کو لمبی آیو دے۔ ایسا کہا   گردھاری لال شرما  جی نے ۔ 
سب کے بحد اسرار پر میں نے اپنی نظم  ۔غربت،، پیش کی  پہلے بند سےہی ہر شخص پر  نظم کا سحر طاری ہو چکا تھا   آخری بند پر آتے آتے  سب زاروقطار رو  رہے تھے ۔  روتے روتے  پولیس کمشنر  رام بھروسے جی نے مجھ سے  کہا بس کرو عبدالشکور جان ہی لے لوگےکیا ؟ فون پر یہ  ڈھیر ساری بات کرکے  مجھ سے  کہا یہ سب باتیں  زیشان خان کو  ضرور بتانا کیوں کہ انکا  رجحان آج کل شہر کے بڑے بڑے   پولیس آفیسر کی طرف زیادہ رہتا ہے آج کل وہی زیشان  خان  صاحب کے باغ کے آم‌  کھا رہے ہیں اور ہاں ۔ شہر کے لوگوں کو بھی میری اہمیت کے بارے میں ضرور بتانا تبھی تو  میری عزت میں  وہ چار چاند لگائیں گے۔ ‌  گردھاری لال  شرما جی بڑے دل کے انسان ہیں انھوں نے  میری پذیرائی  ادبی سفیر کی حیثیت سے کی مجھے جو عزت ملی اور اعزاز سے الگ نواز گیا  یہ سب  باتیں زیشان خان صاحب  کی    
 نیند اڑانے کے لیے کافی ہونگی  اچھا اب میں فون رکھتا ہوں  کل میرٹھ آنے پر باقی  باتیں ہونگی ابھی کلکتہ سے مکھیہ منتری  بنگال  ممتا بینرجی  کے پی ۔اے۔ کا فون آرہا ہے  زرا ان سے بھی پوچھ لوں کہ وہ  کیا چاہتے ہیں
اچھا تو پھر انشاللہ کل ملاقات ہورہی ہے ۔     
   جی بہتر ہے پروفیسر صاحب یہ کہہ کر   میں نے فون رکھ دیا۔  بستر پر لیٹتے ہی  پروفیسر عبدالشکور کے وہ سارے فون ایک ایک کرکے یاد آنے لگے ۔   جو انھوں  نے مختلف شہروں سے مجھے  کیے تھے . لوکڈاون سے پہلے کا  فون جو انھوں نے  مجھے موریشس سے کیا تھا فون پر  مجھے بتایا کہ وہ  آجکل  موریشس  کے نائب صدر رؤف بندھن جی کے ساتھ ان کے گھر پر موجود ہیں۔  رؤف صاحب  نائب صدر  موریشس مجھے    اردو ورڈ  کانفرنس سے اپنے گھر لے آیے تھے  رؤف صاحب  جس گھر میں رہ رہے تھے ۔ وہ ایک عالیشان محل تھا جسے وہ غریب خانہ بتارہے تھے پڑی انکساری سے کام لے رہے تھے  سچ میں رؤف صاحب ایک بڑے دل کے انسان ہے  رؤف صاحب سے میرا پہلا تعارف  تھا ایک گھنٹے  گفتگو  کے بعد انکشاف ہوا وہ بھی میری نظم غربت  کےدیوانے ہیں۔  کانفرنس میں موریشس کے  نائب صدر کے علاوہ  مورشیس کے صدر  محترم  نے بھی اردو ورلڈ  کانفرنس کو  خطاب کرتے ہوئے کہا  جہاں دنیائے ادب کی نامور شخصیات و ادیب  موجود ہیں وہاں محترم پروفیسر عبدالشکور  کی شخصیت کسی   کوہ نور ہیرے سے کسی طرح  کم نہیں ہے کانفرنس میں  جتنی بھی  اہم شخصیات تھی ۔سبھی نے کھڑے ہوکر  تالیاں بجا کر مورشیس کے صدر کی بات کی تائید کی غیر ملک میں   اپنی اتنی عزت اور پذیرائی دیکھ کر میں آبدیدہ ہو گیا تھا ۔ کانفرنس کے اختتام پر  صدر محترم مورشیس نے  مجھے اپنے ساتھ چلنے کے‌ لئے کہا تبھی  نائب صدر رؤف صاحب  نے ان سے  دودن کے لئے مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت چاہی  طے یہ ہوا  دودن رؤف بندھن جی کے ساتھ اور دو دن  مورشیس کے صدر کے  ساتھ  رہنا ہوگا  رؤف صاحب  نے  مجھے بتایا  کہ آپ کی نظم غربت۔ کے دیوانے  ہمارے ملک موریشس کےراسٹپتی(president )بھی ہیں۔  ہاں  اور ایک بات تو میں تمیں بتانی بھول گیا  موریشس کے  بہت سے طالب علموں نے  مورشیس حکوت سے  مانگ کی ہے  کہ پروفیسر عبدالشکور کی  نظم    غربت   کو  کورس میں شامل کیا جائے  اور موریشس حکومت نے  ایک حد تک طالب علموں کی بات مان لی ہے   بس اس فیصلے پر ایجوکیشن منسٹر کے سگنیچر ہونے باقی ہیں   موریشش ایک سیکولر  ملک ہے    خوبصورت ہے  اس چھوٹے سے ملک میں قومی ایکتا  پیار محبت بھائی چارہ  ہر طرف بکھرا پڑا ہے  حد تو یہ ہے کہ لوگوں کے نام بھی ایکتا کی مثال ہیں  جیسے اسلام بھجن۔  پنڈت سلیم ۔   اور خود  موریشس کے نائب صدر  رؤف بندھن صاحب  یہاں ہندؤ مسلم کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتے ہیں ۔ یہ  پیار محبت  ایکتا  پہلے ہمارے ملک ہندوستان کا زیور تھی اب ہمیں  اس قیمتی زیور سے اپنے ہندوستان کو پھر سے  مزین  کرنا ہوگا یعنی  سجانا ہوگا  اس کے لئے خوب جدوجہد کرنی ہوگی  اور  پھر سے وہی بھائی چارا قائم کرنا ہوگا  تبھی ہم دنیا کی نظروں میں ایکتا کی مثال بنکر ابھریں گے   اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کو  پاکر رہیں گے؟  پرسوں موریشس سے میری روانگی ہے انشاءاللہ چھ بجے تک دہلی پہونچ رہاہوں بہت جلد آپ سے ملاقات ہوگی  اور  بہت سی باتیں آپ کے پاس  بیٹھ کر بھی ہونگی  اچھا اب فون رکھتا ہوں  پٹنہ سے مکھیہ منتری نتیش جی  کے آفیس سے  فون آرہا ہے  اور ہاں یہ سب  باتیں زیشان خان کو ضرور بتانا   خان کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں ہا ہا ہا پروفیسر عبدالشکور ہنستے ہوئے فون رکھ دیتا ہے  ادھر میری آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی  میری بیچینی کو دیکھتے ہوئے  راشدہ نے آدھی نیند کی گولی دی  تب کہیں جاکر  ایک گھنٹے بعدنیند آئی   میری بیوی راشدہ نے  اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کہا  آپ اب اس عبدالشکور کا فون اٹھنا بند کریں ورنہ میں میکے چلی جاؤ نگی میکے کا نام سنتے ہی میں نے کچھ  راحت کی سانس لی۔    راشدہ نے پھر غصے سے کہا کہ اس عبدالشکور کا پیچھا چھوڑ دیجئے  جن بڑی شخصیات کا ہم نے فوٹو تک نہیں دیکھا یہ  پروفیسر ان سے کتنی آسانی سے مل لیتا ہے ۔  رات کو میں خواب دیکھتا ہوں  کہ زیشان خان صاحب اپنے اسکوٹر پر آموں کی دو بیٹیاں  لئے کہیں جا رہے ہیں  میرے پوچھنے پر بتایاکہ   شہر میں پولیس کے  ایک بڑے ادھیکاری آئے ہوئے ہیں انھیں اپنے باغ کے آم دینے جارہا ہوں  ,  تبھی میرے منہ سے  نکلا  پروفیسر عبدالشکور  ٹھیک ہی کہہ رہاتھا کیا کہہ رہا تھا  زیشان صاحب نے مجھے جھنجھوڑ کر پوچھا میں نے وہ ساری باتیں خان صاحب کو بتادیں جو انہوں نے  فون کرکے  لکھنؤ اور موریشس سے کی تھیں  یہ سب سنکر خان صاحب اپنا تھوک سٹکتے ہوئے بولے   کیا پروفیسر عبدالشکور کی اتنی پہنچ اتنی  بڑی بات ہو گئی ہے  کیا عبدالشکور صاحب  اس وقت  گھر پر ہونگے پتہ نہیں میرے پاس تو  عبدالشکور  کا صرف  فون ہی آتا ہے پھر  میں کیا   دیکھتا ہوں  خان صاحب کے اسکوٹر  کا رخ  پروفیسر عبدالشکور کے  گھر کی طرف  ہو جاتا ہے  اور ادھر میں سوچنے لگتا ہوں کہ خان صاحب کب  غریبوں کے بارے میں   سوچیں گےیہ تو ہمیشہ بڑے لوگوں کو متاثر کرنے پر لگے رہتے ہیں کاش یہ غریبوں کا درد محسوس کریں اور  حاتم طائی کی طرح سوچیں جسے ہی  میری آنکھ کھلی میں نے بیگم کو اپنے سرہانے   کھڑے پایا    کیا پھر کوئی خواب دیکھ رہے تھے۔ پروفیسر عبدالشکور کا   ہاں راشدہ رات تو بڑا عجیب وغریب خواب دیکھا  پروفیسر عبدالشکور تو خواب میں  ندارد تھا لیکن زیشان خان نظر  آئے
 وہی آم وغیرہ دیکھے ہونگے  بلکل سچ۔ راشدہ ‌وہ دو بیٹیاں آموں کی لے کر  پروفیسر عبدالشکورصاحب کے گھر کی طرف  جا رہے تھے  بڑا اچھا خواب ہے ہوسکتا ہے  آج زیشان صاحب ہمارے گھر بھی‌آم لے آئیں ممکن ہے  میں نے راشدہ کی بات پر سر ہلایا   میں ابھی  راشدہ سے بات کرہی رہاتھا تبھی فون کی گھنٹی بجی  میں  نے ڈرتے ڈرتے فون اٹھایا    ادھر سے آواز آئی  ہلو  میں پروفیسر عبدالشکور بول رہا ہوں  اسلام علیکم پروفیسر صاحب کیسے مزاج ہیں  (میں نے فون پر ہاتھ رکھر کہا  لو راشدہ شیطان کا نام لیاشیطان حاضر)     کیا میرٹھ پہونچ گئے  سر  ؟   نہیں۔ ابھی نہیں میں سیدھا  ایرپورٹ سے  کیجریوال جی  کے گھر آگیا ہوں  آج میرٹھ آنے کا پکا ارادہ تھا  لیکن جہاز میں میرے ساتھ  کرن بیدی  صاحبہ پڈوچیری کی لیفٹیننٹ گورنر  بھی میرے ساتھ  موجود  تھی   انھوں نے فون کرکے دہلی کے وزیر اعلی کیجریوال جی کو میری آمد  کےبارے میں بتادیا تھا ۔ 
سر وہ تو مخالف گروپ سے ہیں  ارے بھئی آپ بہت معصوم ہیں سیاست میں  سب ملے رہتے ہیں کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوتا ہے  سمجھے  ذرا ہولڈ پر دہنا   مکھیہ  منتری کیجریوال صاحب کے  آفیس سے  فون آرہا ہے کچھ دیر بعد پھر مجھ سے مخاطب ہوتے   ہیں  ہلو  ہاں  سر ارے بھئی کیجری وال جی  کا فون تھا وہ خود ہی ایرپورٹ آرہے ہے   مجھے  لینے کے واسطے ان کے سا تھ نائب  مکھیہ منتری  بھی ہیں۔ 
  کیجری وال جی  کے پاس دودن رکنا پڑے گاانھوں نے   ودھان سبھا میں  میرے اعزاز میں  ایک محفل رکھ دی ہے کل انشاللہ  تمیں پوری ریپورٹ دوں گا ابھی فون رکھتا ہوں ذرا  ممبی سے امبانی کا فون آرہا ہے یہ سب باتیں زیشان خان کوضرور  بتانا اس کی   نیندیں  اڑانے کے لئے کافی ہیں فون رکھتے ہی راشدہ نے میری کلاس لی۔  مل گئی فرصت پروفیسر عبدالشکور کے  فون سے؟    کیا فرصت مل گئی  دراصل راشدہ  میں میری ساری تعلیم‌ پروفیسر عبدالشکور  صاحب کی نگرانی میں  ہوئی ہے  وہ احساس کمتری کا شکار ہیں  وہ قابل تو ہیں  لیکن انہیں  ان کی قابلیت کے حساب سے منسب نہیں ملا ہے وہ بڑی بڑی باتیں کرکے  اپنے اثرورسوخ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں    وہ چاہتے ہیں سماج میں ان کے بھی کام کی تعریف ہو تم تو راشدہ جانتی ہو مجھے شاعری میں  اپنا مقام بنانے کے لئے  زندگی کا ایک بڑا حصہ دینا پڑا  رات دن محنت کی  تب کہیں جاکر کچھ لوگوں میں پہچان بنا پایا ہوں میرے بارے میں سن سن کر  پروفیسر عبدالشکور صاحب مجھے بھی متاثر کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے  وہ مجھے جگہ جگہ سے فون کرکے بتاتے رہتے کی مجھے کم مت آنکنا   اگر تم سماج  میں کچھ شہرت رکھتے ہو  تو  میں بھی کسی طرح  تم سے کم نہیں ہوں ۔ اور فون کے اخیر میں وہ یہ کہنا نہیں بھولتے  یہ سب باتیں زیشان۔ صاحب کوضرور  بتائیں  راشدہ پروفیسر  عبدالشکور  ان لوگوں کے ساتھ مجھے بھی متاثر کرنا چاہتے ہیں   یہ سب باتیں کرکے  انہیں قلبی سکون ملتا ہے  میں جانتا ہوں  وہ جن بڑی اہم شخصیات کا زکر  فون پر میرے ساتھ کرتے ہیں شاید ہی  زندگی میں    کبھی ان سےملے ہوں  آج  
‌کسی بھی وقت  عبدالشکور کا   فون آتا ہوگا  وہ کیجری وال جی  کے پاس دہلی میں  رکے ہوئے ہیں جیسا انھوں نے مجھ سے کہا  میں ابھی راشدہ سے بات کر ہی رہا تھا تبھی  بیل بجی  میں نے  فون اٹھایا  ادھر سے  پروفیسر عبدالشکور کی آواز آئی ہلو  خیریت ہے جناب  جی سر   سب آپ کی  دعائیں ہیں  جناب کل ودھان سبھا میں جو ادبی سیمنار ہوا اسکا جواب نہیں تھا  ایسی پذیرائی  تو    ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے محل میں بھی  نہیں کی  تھی  جبکہ ایران کا دسترخوان ساری دنیا میں مشہور ہےحسن روحانی جی نے دنیا جہان کے کھانے دسترخوان پر  لگا دیے تھے۔  میں  حسن روحانی کی دعوت پر دو دن کے لئے ایران  چلا گیا تھا  یہ سب مجھے یہاں آکر  کیجری  وال جی  کی مہمان نوازی دیکھر احساس ہوا  انھوں نے   وہ جم کر خدمت کی اور کیا زبردست محفل تھی  دہلی کی سب ہی  معزز شخصیات اور گورنر کی موجود گی محفل میں چار چاند لگا رہی تھی  سبھی نے میری نظم غربت کی تعریف کی لیکن   نظم کا زیادہ اثر کیجری وال جی اور شہر کے معزز  لوگوں  پر ہوا ان سب کا  رونا تو   مجھ سے بھی نہ دیکھا گیا  اتفاق   دیکھئے   اسی وقت  اناہزارے جی   کا فون آیا  میں نے سب سے معزرت  چاہی  ہزارے جی  کا فون سنا میں نے انہیں  بتایا کہ میں اس وقت دہلی ودھان سبھا میں موجود ہوں  انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے علم ہے  مجھے دہلی کے گورنر نے بتادیا تھا   پروفیسر عبدالشکور  تم اپنی نظم غربت  کیجری وال جی کو ایک بار اور سناؤ تاکہ  وہ سب کو حق انصاف کی عینک سے دیکھیں  اور کسی سے مذہب کی بنیاد پرکوئی بھید بھاؤ نہ کریں جب کیجریوال جی  کو دوبارہ نظم سنائی خود بخود ان  کے منہ سے نکلنے لگا کہ اب میں سب کے ساتھ  انصاف کروں گا ۔ اب میں سب کے ساتھ  انصاف کروں گا ودھان سبھا کی محفل ایک بجے اختتام  پذیر ہوئی   گورنر صاحب نے مجھے  اشوکا ہوٹل چھوڑ دیا  تھا  انشاللہ کل دوبجے تک میرٹھ پہونچ رہا ہوں یہ سب باتیں زیشان خان کو ضرور بتانا   یہ اس کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں  اب فون رکھتاہوں   امیتابھ بچن کا فون آرہاہے خدا حافظ  کل اچانک  صبحِ چھ  بجے  پروفیسر عبدالشکور کے  بڑے لڑکے ارسلان کا فون آیا  ادھر سے  سلام کے بعد ارسلان کی آواز آئی  انکل آپ خیریت سے ہیں  ہاں ارسلان بیٹے  سب خیریت ہے   تم سناؤ اتنی سویرے فون کس  لئے کیا  انکل کل پاپا علی گڑھ گئے تھے  لیکن رات سے ان کا فون نہیں مل رہا ہے  میں نے سوچا کہ انکل سے معلوم کروں  شاید میرٹھ چلے گئے ہوں   ہاں ارسلان  پروفیسر عبدالشکور صاحب کا  پرسوں فون آیا تھا وہ  دہلی میں مکھیہ منتری کیجری وال جی  کے پاس تھے   وہ موریشس سے  آتے ہوئے دہلی روک  گئے تھے  ادھر سے ارسلان کی ہنسی آواز سنائی  دیتی  ہے   انکل وہ تو ایک ہفتے سے گھر سے باہر نہیں   نکلے ہیں  کل ہی علی گڑھ گئے تھے کہہ رہے کہ وہ رات تک گھر پہونچ جائیں گے   رہا موریشس  رہلی جانے کا وہ تو سفر سے بھی بہت گھبراتے ہیں  علی گڑھ  بھی خالو کے ساتھ گئے تھے  اور  ہاں باہر جانے کا تو سوال  ہی پیدا نہیں ہوتا  انھوں نے تو آج تک اپنا  پاسپورٹ   تک نہیں بنوایا  انکل جیسے ہی پاپا کی  کوئی خبر ملے  مجھے فون ضرور کیجئے گا  اممی بہت پریشان ہیں اچھا اب  فون رکھتا ہوں 
‌  ارسلان بیٹے  
‌   جی انگل
‌  بیٹے  اگر پاپا گھر آجائیں تو انھیں مت  بتانا کیا کہ تم نے مجھے بھی  فون کیا تھا 
‌جی انکل بہتر ہے 
‌دیکھا راشدہ مجھے تو پہلے سے پتہ تھا یہ پروفیسر عبدالشکورفروڈیا  ہے   ادھر ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کھلکھلا کر ہنس پڑے  اور ہم دونوں کے منہ سے  بے اختیار نکلا
‌  اللہ سمجھے گا تجھے عبدالشکور*

No comments: